"روایت (علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل اور شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے تسامح اور خطاء)"تحقیق: قاضی سلمان فارسی

حضور علیہ السلام کے اقوال، افعال، اور تقریرات کو حدیث کا نام دیا جاتا ہے جو دین کے اندر حجیت کا مقام رکھتی ہیں۔ اس لئیے صحابہ کرام علیہم الرضوان ان کے بعد تابعین، تبع تابعین، اتبع تبع تابعین اور آئمہ و محدثین کرام اس علم حدیث کو روایتا اور درایتا آگے منقتل کرتے رہے امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے۔ چونکہ حدیث کو مقام قبولیت وحجیجت حاصل تھا تو کچھ لوگوں (واضعین حدیث) نے اپنی طرف سے پھر موقع مناسبت سے مختلف روایات گھڑ کر ان کی خود ساختہ اسناد بنا کر امت کے اندر مشہور کردیں۔ اور وہ روایات آج تک ہمارے اندر موجود ہیں۔ مختلف ادوار میں اس پر کام ہوتا رہا اور ان روایات کو الگ کردیا گیا جس میں کبار محدثین میں سے امام ابن جوزی، ابن تیمیہ، امام ذہبی، امام سیقطی، امام ابن حجر عسقلانی، امام ابن حجر مکی امام کنعانی امام سمہودی، امام سخاوی، امام صنعانی، امام زرکشی وغیرہم کا نام سر فہرست ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان آئمہ ہی سے ایسی روایات منقول ہیں جو موضوع ہیں لیکن ان کی اپنی کتابوں میں موجود ہیں جیسے امام سیوطی نے ان احادیث کے خلاف کم وبیش 5-6کتابیں لکھیں۔ لیکن ان کی اپنی تفسیر "الدر المنثور" کو...