"روایت (علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل اور شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے تسامح اور خطاء)"تحقیق: قاضی سلمان فارسی

حضور علیہ السلام کے اقوال، افعال، اور تقریرات کو حدیث کا نام دیا جاتا ہے جو دین کے اندر حجیت کا مقام رکھتی ہیں۔ اس لئیے صحابہ کرام علیہم الرضوان ان کے بعد تابعین، تبع تابعین، اتبع تبع تابعین اور آئمہ و محدثین کرام اس علم حدیث کو روایتا اور درایتا آگے منقتل کرتے رہے امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے۔ چونکہ حدیث کو مقام قبولیت وحجیجت حاصل تھا تو کچھ لوگوں (واضعین حدیث) نے اپنی طرف سے پھر موقع مناسبت سے مختلف روایات گھڑ کر ان کی خود ساختہ اسناد بنا کر امت کے اندر مشہور کردیں۔ اور وہ روایات آج تک ہمارے اندر موجود ہیں۔ مختلف ادوار میں اس پر کام ہوتا رہا اور ان روایات کو الگ کردیا گیا جس میں کبار محدثین میں سے امام ابن جوزی، ابن تیمیہ، امام ذہبی، امام سیقطی، امام ابن حجر عسقلانی، امام ابن حجر مکی امام کنعانی امام سمہودی، امام سخاوی، امام صنعانی، امام زرکشی وغیرہم کا نام سر فہرست ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان آئمہ ہی سے ایسی روایات منقول ہیں جو موضوع ہیں لیکن ان کی اپنی کتابوں میں موجود ہیں جیسے امام سیوطی نے ان احادیث کے خلاف کم وبیش 5-6کتابیں لکھیں۔ لیکن ان کی اپنی تفسیر "الدر المنثور" کو موضوع احادیث کا مجموعہ کہا جاتا ہے۔
 اسی طرح کئی ائمہ کا اپنا اپنا منہج رہا ہے روایات تصحیح و تضعیف میں۔ یہاں ہم ایک روایت پر مختصر تبصرہ کریں گے جو محدث کبیر، شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی طرف سے صحیح قرار دے دی گئی ہے۔

"علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل"
علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے جب اس روایت کی بابت سوال ہوا تو آپ نے جوابا فرمایا:
"ہاں یہ حدیث صحیح ہے"
(شریف الحق امجدی، المواہب الالہیۃ فی الفتاوی الشریفیۃ المعروف بہ فتاوی شارح بخاری، جلد:1 صفحہ:495 دائرۃ البرکات، گھوسی، ضلع مئو)

علامہ صاحب نے صاف الفاظ میں اس روایت کو بنا کسی حوالے کے "صحیح" لکھ دیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے۔ اور یہاں پر علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے تسامح ہوا ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ روایت بالکل موضوع اور من گھڑت ہے اس کی کوئی اصل نہیں۔ اس کے موضوع ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1__ درایت حدیث (مفہوم حدیث کا غلط ہونا)
2__ غیر مستند ہونا (روایت حدیث میں اسنادی اعتبار سے موضوع ہونا)


1__ غیر مستند ہونا
             عمیق نظری کے ساتھ غیر جانبدارانہ تحقیق وجستجو کے باوجود بھی ہمیں اس روایت کی کوئی بھی سند نہ مل سکی۔ چند تصوف کی کتابوں میں درج ہے ان کے علاؤہ کہیں پر موجود نہیں۔ امام ابی طالب مکی المتوفی:382 ہجری، کی تصوف پر مبنی کتاب "القوت القلوب فی معاملۃ المحبوب۔۔۔۔الخ" کی طرف اس کو منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کتاب کے اندر ہمیں نہیں مل سکی۔ البتہ چند اور کتب میں ہے لیکن وہاں بھی سند درج نہیں۔ علم حدیث اور علوم الحدیث کے طالبان اس چیز کو بہتر جانتے ہوں گے کہ کسی روایت کی صحت وضعف کے لئیے "سند" کا ہونا کتنا ضروری یے، خواہد اور تتابع بعد میں آتے ہیں پہلے سند کا ہونا لازمی شرائط میں سے ہے۔
امام ابو ادریس الشافعی علیہ الرحمہ المتوفی:204 ہجری کا ایک مشہور قول ہے کہ:
مثل الذي يطلب الحديث بلا اسناد كمثل حاطب ليل
بلا اسناد حدیث طلب کرنے والے کی مثال رات کو لکڑیاں اکھٹے کرنے والے کی سی ہے۔
(بیہقی، مناقب الشافعی، جلد:2 صفحہ:143,
بیہقی، المدخل الی السنن الکبریٰ، صفحہ:214
سخاوی، فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث للعراقی، جلد:3 صفحہ:345)
امام شافعی علیہ الرحمہ نے بلا اسناد حدیث کو تلاش کرنے والے شخص کی مثال اس شخص سے دی ہے جو رات کو لکڑیاں تلاش کررہا ہے، یعنی رات کو روشی کے لئیے لکڑیاں ڈھونڈ رہا ہے وہ تو اس کو ملیں گیں نہیں سوائے یہ کہ وہ کوئی روشنی کے جائے اپنے ساتھ۔ اسی طرح حدیث والا شخص بھی اپنے ساتھ سند لے کر نہ آئے تو تو کوئی فایدہ نہیں۔
 امام المحدثین والمفسرین، امام ابومحمد سفیان بن عیینہ علیہ الرحمہ المتوفی:197 ہجری آپ اس ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
ان الحديث بلا اسناد ليس بشيء، وان الاسناد درج المتون، به يوصل إليها
بلا اسناد حدیث کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور بے شک سند کی حیثیت متون کی سیڑھی کی ہے۔ اس کے ذریعے ہی ان متون تک پہنچا جاتا ہے۔
(خطیب بغدادی، الکفایۃ فی معرفۃ علم اصول الروایۃ، جلد:2 صفحہ:451 رقم:1126)
امام سفیان بن عیینہ کے قول سے مزید یہ بات مترشح ہوگئی ہے کہ سند حدیث کو پرکھنے کا ان کے متون کی طرف جانے کا راستہ اور سیڑھی ہے۔ اگر سیڑھی ہی نہیں ہوگی تو اوپر کیسے جائے گا انسان۔
امام شعبہ، امام یحییٰ بن سعید، امام قاضی عیاض مالکی علیھم الرحمہ کا قول ہے کہ:
حدیث کے متن کو نا دیکھو حدیث کی سند کو دیکھو، اگر سند موجود ہے اور صحیح ہے تو پھر حدیث صحیح ہے۔ حدیث کو پرکھنے کا دارومدار ہی سند پر یے۔
(ابن عبد البر، التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید، جلد:1 صفحہ:57
ابن رجب حنبلی، شرح علل الترمذی، صفحہ:21
خطیب بغدادی، الجامع لاخلاق راوی وآداب السامع، جلد2 صفحہ:201 رقم:1301
قاضی عیاض مالکی، الالماع الی معرفۃ اصول الروایۃ وتقیید السماع، صفحہ:194)



2__ مفہوم کفریہ ہونا
      انبیاء علیھم السلام کا ایک اپنا مقام ومرتبہ ہوتا ہے اگر ساری دنیا کے صحابہ واصحاب اولیاء صلحاء مل جائیں تب بھی انبیاء علیہم السلام کی مثل کسی طرح بھی نہیں بن سکتے۔ امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں ہیں کہ انبیاء علیھم السلام کا مرتبہ اولیاء سے بڑھ کر ہوتا ہے وہ کبھی اس تک نہیں پہنچ سکتے نا ان کی مثل بن سکتے ہیں۔
)ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب: العلم، جلد:1 صفحہ:201 تحت الرقم:122)
 اس روایت کے الفاظ "علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل" میں واضح طور پر تشبیہ دی گئی ہے جو کہ کفریہ ہے۔ شرک فی النبوت کے مترادف ہے (اس کی توضیح آگے آئے گی)۔ اگرچہ کچھ صوفیاء کرام نے اس کی الگ الگ تشریحات توجیہات تفہیمات اور توضیحات بیان کی ہیں کہ کس طرح مثل ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس مثال کے لئیے انبیاء علیھم السلام کا انتخاب ضروری نہیں ویسے ہی علمائے بنی اسرائیل کا کرسکتے ہیں کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے صالح علماء کی طرح ہیں۔ لہذا اصول روایت کے لحاظ سے ببی یہ روایت موضوع ہے کیونکہ اس کی کوئی سند موجود نہیں۔ اور اصول دریافت کے اعتبار سے بھی یہ روایت کفریہ مفہوم رکھتی ہے اس لئیے مردود ہے۔

3__ اہلتشیع کا ڈھکوسلہ
               واضعین حدیث جب نکلے تو ان لوگوں نے طرح طرح کی روایات نکالنا شروع کردیں۔ بنو امیہ کا دور تھا اس وقت ان کی ابتداء ہوئی۔ کچھ ناصبیوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مقابلے میں لا کر کھڑا کرنا چاہا اور ان کے مناقب میں کئی روایات گڑھ لیں۔ اسی طرح مخالف سمت میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے فضائل میں بھی روافض نے پھر احادیث گڑھ لینا شروع کردیں۔ یہ روایت بھی ان ہی من گھڑت ڈھکوسلوں میں سے ہے جو اہلتشیع نے گڑھی اور اپنے آئمہ اور محدثین وغیرہ کو حد سے بڑا درجہ دینے لگے۔ اہلتشیع کے ہاں اس روایت کی باقاعدہ سندیں موجود ہیں۔
مالا باقر مجلسی المتوفی:1110 ہجری نے اپنی کتاب "بحار الانوار" کی جلد:2 صفحہ:22 اور کچھ شیعہ محدثین نے نقل کی ہے اپنی کتابوں میں۔ 
مزید اہلتشیع کی کتابوں میں ہمیں اس روایت کا ایک اور متن ملتا ہے جو مزید اس پر دال ہے کہ یہ روایت نا صرف کفریہ ہے بلکہ اہلتشیع کا ڈھکوسلہ ہے۔ الفاظ یہ ہیں کہ "علماء امتی افضل من انبیاء بنی اسرائیل" 
میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء سے بھی افضل ہیں (العیاذ باللہ نقل کفر کفر نباشد)
(حلی، تحریر الاحکام، جلد:1 صفحہ:38
احسائی، عوالی الآلی، جلد:4 صفحہ:77
سبزواری، معارج الیقین فی اصول الدین، صفحہ:110
خاجوئی، جامع الشتات، صفحہ:157)
تو یہ روایت شیعوں کی کا ایک من گھڑت قصہ ہے اور کچھ نہیں۔ (آگے چل کر مزید ہم اس پر شیعہ علماء ہی کے اقوال دیں گے کہ یہ رویات موضوع اور من گھڑت ہے)

آج کل مرزائی بھی اس روایت کو کافی بیان کرتے ہیں۔ اپنی کتب کے اندر خطابات میں۔ اور اس "تمثیل" کی غلط تشریحات کرکے عوام کو یکسر گمراہ کررہے ہیں۔
علامہ ناصر الدین البانی لکھتے ہیں کہ:

لا أصل له باتفاق العلماء، وهو مما يستدل به القاديانية الضالة علي بقاء النبوة بعده صلي الله عليه وسلم..
علماء کرام کا اتفاق ہے کہ اس روایت کوئی حقیقت نہیں۔ البتہ قادیانی اس روایت سے گمراہ کن استدلال کرتے ہیں کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی نبی آ سکتا ہے۔ 
(البانی، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ واثرھا السیئ فی الامۃ، ۔ جلد:1 صفحہ:670_669 رقم:466)


4__ روایت "علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل" آئمہ ومحدثین اہلسنت کی نظر میں
یہاں تک تو ثابت ہوگیا کہ اس روایت کا نا مفہوم درست ہے۔ اور نا ہی اس کی کوئی سند ہے ۔ بلکہ اس کو اہلتشیع نے گڑھی کر بیان کیا ہے اور کفار اب اس سے دلیل اخذ کرتے ہیں۔ اب ہم اس دعوے پر اپنے چند اکابر محدثین و علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں کہ آیا انہوں نے جب اس روایت کا نقل کیا تو کیا فرمایا

1__الامام شمس الدین ابی عبداللّٰہ محمد بن مفلح المقدسی الحنبلی المتوفی:763 ہجری
عظیم محدث، فقیہ، متکلم امام ابن مفلح علیہ الرحمہ اس روایت کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
واما ما يذكره بعض الناس ((علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل)) فلم اجد له اصلا، ولا ذكر له في كتب المشهورة المعروفة، ولايصح.
جہاں تک لوگ ایک روایت "علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل" کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی کوئی اصل نہیں۔ اور نا ہی مشہور و معروف کتب میں ملتی ہے۔ بلکہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔
(ابن مفلح، الآداب الشرعیۃ والمنح المرعیۃ، جلد:2 صفحہ:28)

2__ امام الآئمہ فی الحدیث امام بدرالدین ابی عبداللّٰہ محمد بن عبداللّٰہ الزرکشی المتوفی:794 ہجری
علم حدیث کے اندر آپ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ آپ اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
لايعرف له أصل.
اس روایت کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
(زرکشی، الآلی المنثورۃ فی الاحادیث المشہورۃ المعروف بہ التذکرۃ فی الاحادیث المشتہرۃ، صفحہ:167 رقم:8)


3__ الأمام والمحدث حافظ شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي المتوفی:902 ہجری
امام سخاوی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:
حَدِيث: عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ شَيْخُنَا ومن قبله الدميري والزركشي: إنه لا أصل له، زاد بعضهم: ولا يعرف في كتاب معتبر، وقد مضى في: أكرموا حملة القرآن، كاد حملة القرآن أن يكونوا أنبياء، إلا أنهم لا يوحى إليهم، ولأبي نُعيم في فضل العالم العفيف بسند ضعيف عن ابن عباس رفعه: أقرب الناس من درجة النبوة أهل العلم والجهاد.
اس حدیث کے بارے میں ہمارے شیخ اور ان سے پہلے علامہ دمیری اور زرکشی نے کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور یہ کسی معتبر کتاب میں معروف نہیں ہے۔ البتہ ابونعیم نے پاک دامن عالم کی فضیلت میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبوت کے سب سے قریب وہ لوگ ہیں جو اہل علم اور اہل جہاد ہوں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔
(سخاوی، المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة، صفحہ:459 رقم:702)
مزید آپ نے یہی قول اپنی دو مزید کتابوں میں لکھا ہوا ہے:
سخاوی, فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث للعراقی، جلد:3 صفحہ:35
سخاوی، الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية، صفحہ:248 رقم:60)


4__ جمال الدين يوسف بن حسن بن أحمد بن حسن بن عبد الهادي الصالحي المقدسی الدمشقی الحنبلی المتوفی:909 ہجری
آپ حنابلہ کے ایک عظیم محدث، مؤرخ اور فقیہ ہیں۔ اس روایت کے تحت فرماتے ہیں:
 قيل لا أصل له
کہا گیا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
(ابن المبرد، التخریج الصغیر والتحبیر الکبیر، صفحہ:119 رقم:608)


5__ الشیخ الامام العلامۃ حافظ عصر و وحید دھر ابی الفضل جلال الدین عبد الرحمٰن ابی بکر السیوطی الشافعی المتوفی:911 ہجری
اکابرین کے سروں کے تاج، عظیم محدث، مفسر، متکلم، مؤرخ، فقیہ، صوفی شیخ علامہ حافظ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اس روایت کے تحت لکھتے ہیں کہ:
لا أصل له
اس روایت کی کوئی حقیقت نہیں۔
(سیوطی، الدرۃ المنتثرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ، صفحہ:188 رقم:293)


6__ الشريف الامام نور الدين أبو الحسن علي بن عبد الله بن أحمد بن علي الحسني السمهودي المتوفی:911 ہجری
عظیم محدث، محقق، فقیہ، مؤرخ امام جلال الدین سمہودی اس روایت کے تحت فرماتے ہیں:
قال الترمذي، وابن حجر، والزركشي: لا أصل له
امام ترمذی، ابن حجر اور زرکشی نے فرمایا اس روایت کی کوئی حقیقت نہیں۔
(سمہودی، الغماز على اللماز. وهو في الأحاديث الضعيفة والموضوعة، صفحہ:145 رقم:157)


7__امام الآمہ والمحدثین امام احمد بن محمد بن علی ، ابن حجر الہیتمی السعدی الانصاری المکی المتوفی:974 ہجری
امام صاحب اس روایت پر فتویٰ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
(فاجاب) يقوله قال الدميري هذا الحديث لايعرف له مخرج
پس میں اپنے جواب میں امام دمیری کے اس قول پر اکتفاء کرتا ہوں کہ اس روایت کی تخریج معروف نہیں۔ (یعنی کسی امام نے اس کا نقل نہیں کیا)
(ابن حجی ہیتمی، الفتاویٰ الحدیثیۃ، صفحہ:480 رقم:306)


8__ جمال الدين محمد بن طاهر الصديقي الفتني المتوفی:986 ہجری
امام الفقہاء، رئیس المحدثین امام طاہر پٹنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل" لا أصل له
اس روایت کی کوئی حقیقت نہیں۔
(طاہر پٹنی، تذکرۃ الموضوعات، باب: فضل العالم العامل علی العابد، صفحہ:53 رقم:92)


9__ نور الدين أبو الحسن علي بن سلطان محمد القاري، الهروي المكي، المعروف بملَّا علي القاري المتوفی:1014 ہجری
مفتی الاحناف، خاتم المحدثین، عمدۃ المحققین، زبدۃ المفسرین، استاذ العلماء امام ملا علی قاری علیہ الرحمہ اس روایت کے تحت فرماتے ہیں:
 قال الدميري والعسقلاني: لا اصل له، وكذا قال الزركشي.
امام دمیری اور عسقلانی (اصل میں امام ابن حجر ہیثمی مکی ہیں عسقلانی نہیں) نے فرمایا اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔ اور امام زرکشی نے بھی ان کی تائید کی ہے۔
(علی قاری، الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبری، صفحہ:248 رقم:298
ایک دوسری جگہ بھی یہی فرمایا ہے:
علی قاری، المصنوع في معرفة الحديث الموضوع وھو الموضوعات الصغریٰ، صفحہ:123 رقم:196)



10__ امام محمد عبد الرؤوف المناوی المتوفی:1031
عظیم صوفی بزرگ ترین ہستی اور محدث کبیر امام مناوی علیہ الرحمہ اس حدیث کو نقل کرکے فرماتے ہیں کہ:
 سئل الحافظ عراقي عما اشتهر علي الالسنة من "حديث علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل" فقال لا أصل له، ولا اسناد بهذا اللفظ ويغني عنه العلماء ر
ورثة الانبياء وهو حديث صحيح. 
امام حافظ عراقی سے سوال ہوا اس حدیث "علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل" کے بارے میں تو آپ نے فرمایا: اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔ اور ان الفاظوں کی کوئی سند نہیں ملی البتہ دوسری روایت ہے "العلماء ورثۃ الانبیاء" اور وہ صحیح ہے۔
(مناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر، حرف: العین، جلد:4 صفحہ:488 تحت الرقم:5703)
یہاں ہم نے 10 کبار محدثین کے اقوال نقل کئیے ہیں، ان کے علاؤہ:
امام المحدثین، فخر المؤرخین امام عبد الرحمن بن علي بن محمد الشيباني الزبيدي الشافعي، وجيه الدين، المعروف بابن الديبع المتوفی:944 ہجری نے اس روایت کو "تمييز الطيب من الخبيث فيما يدور على السنة الناس من الحديث" صفحہ:107 رقم:1664 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے۔
امام المحدثین۔ رئیس المصنفین امام محمد بن طولون الصالحی المتوفی:953ہجری نے اس روایت کو "الشذرة في الأحاديث المشتهرة" جلد:2 صفحہ:247 رقم:602 کے تحت موضوع قرار دیا ہے
علامہ حافظ الحدیث الشیخ مرعی بن ہوسف الکرمی المقدسی المتوفی:1022 ہجری نے اس کو "الفواہد الموضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ" صفحہ:101 رقم:81 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے

امام محمد بن الباقی الزرقانی المتوفی:1122 ہجری نے "مختصر المقاصد الحسنة" صفحہ:157 رقم:652 اور "شرح المواہب اللدنیہ" جلد:6 صفحہ:58 کے تحت اس کو 
موضوع قرار دیا ہے۔

امام المفسرین والمحدثین امام اسماعیل بن محمد العجلونی الجراحی المتوفی:1162 ہجری نے "کشف الخفاء ومزیل الالباس عما اشتھر من الاحادیث علی السنۃ الناس" جلد:2 صفحہ:74 رقم:1744 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے

شیخ محمد بن علی قاضی شوکانی المتوفی:1250ہجری نے اپنی کتاب "الفواہد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ" صفحہ:286 رقم:47 میں اس کو موضوع قرار دیا ہے۔

شیخ محمد بن درویش بن محمد الحوت البیرونی الشافعی المتوفی:1277 ہجری نے اس روایت کو "أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب" صفحہ:184 رقم:889 کے تحت موضوع قرار دیا ہے۔
خاتمۃ المحدثین قدوۃ المحققین الشیخ ابی المحاسن محمد بن خلیل القاوقجی الطرابلسی المتوفی:1305 ہجری نے اس روایت کو "اللؤلؤ المرصوع فیما لا اصل له او باصله موضوع، صفحہ:121 رقم:338 کے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔

علامہ شیخ محمد بن البشیر بن ظافر الازہری الشافعی المتوفی:1328 ہجری نے اس روایت کو "تحذیر المسلمین من احادیث الموضوعۃ علی سید المرسلین" صفحہ:119 رقم:213 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے۔

شیخ علی حسن علی الحلبی نے "الموسوعۃ فی الاحادیث والآثار الضعیفۃ والموضوعۃ، جلد:6 صفحہ:50 رقم:13996 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے

شیخ احمد یاسین الفرقدانی نے "الاحادیث المشتھرۃ الضعیفۃ" صفحہ:41 رقم:31 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے

شيخ محمد بن محمد بن محمد الحسيني السندروسي الطرابلسي: فقيه حنفي نے اس روایت کو "الكشف الاهي عن شديد الضعف والموضوع والواهي" جلد:2 صفحہ:83 رقم:576 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے۔

علامہ محمد امیر الکبیر المالکی نے "النخبۃ البھیۃ فی الاحادیث المکذوبۃ علی خیر البریۃ" صفحہ:84 رقم:202 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے۔

فخر المفسرین، محدث کبیر شارح صحیحین علامہ سید غلام رسول سعیدی نور اللہ مرقدہ نے بھی "تبیان القرآن" سورۃ: الانبیاء، تحت رقم الآیۃ:21 جلد:7 صفحہ:659 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے۔

یہ چند مزید کبار محدثین کے اقوال کی اجمالی فہرست تھی۔ ان کے علاؤہ دیگر عربی کتب میں بھی اور اردو کی کم و بیش اس فن کی تمام کتب میں اس روایت کو موضوع اور باطل قرار دیا گیا ہے۔



5__ روایت "علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل" شیعہ محققین کی نظر میں:
اہلتشیع کے مجتہد علامہ حر عاملی المتوفی:1104 ہجری اس روایت کے تحت لکھتے ہیں کہ:
لا يحضرني أنّ أحداً من محدثينا رواه في شيء من الكتب المعتمدة، نعم نقله بعض المتأخرين من علمائنا في غير كتب الحديث، وكأنه من روايات العامة او موضوعاتهم.
عاملی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ ہمارے کسی محدث نے معتبر کتاب کے اندر اس روایت کو نقل کیا ہو۔ البتہ ہمارے بعض متاخر علماء نے اپنی عام کتابوں میں نقل کی ہے جن میں اکثر موضوع روایات ہوتی ہیں۔
(حر العاملی، الفوائد الطوسیۃ، صفحہ:376, رقم الفائدۃ:85)

علامہ خاجوئی نے اس روایت کو "جامع الشتات" صفحہ:157 پہ موضوع قرار دیا ہے۔
محمد طباطباعی کربلائی نے "مفاتیح الاصول" صفحہ:540 پہ اس روایت کو باطل قرار دیا ہے 

مجتہد عالم دین محمد صدر الشیعی نے "ماوراء الفقہ" جلد:9، صفحہ:57 پہ اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔

شیعہ محدث شریف الجزائری نے "مصابیح الانوار" جلد:1 صفحہ:434 رقم:83 کے تحت اس کو موضوع قرار دیا ہے۔

الشیخ باسم حسون سماوی الحلی نے "الرسول وادلتہ الشعائر الحسینیۃ" صفحہ:755 پہ اس روایت کو کذب در کذب لکھا ہے۔
شیخ جعفر مرتضی نے "الصحیح من سیرۃ نبی الاعظم" جلد:5 صفحہ:189 پہ اس کا رد کیا ہے۔
شیعہ مفسر محمد تقی شریفہ نے "تفسیر نوین" کے مقدمہ، صفحہ:1 ہو اس کی تضعیف کی ہے 

علی بن حسین نباطی نے "صراط المستقیم" جلد:1, صفحہ:103 اس کو موضوع کہا ہے۔

انوار النعمانیہ کے محق سید الخوئی نے اس کو موضوع لکھا ہے۔ (حاشیہ انوار النعمانیہ، جلد:3 صفحہ:347)

بطور نمونہ اجمالی طور پر ہم نے اختصار کے ساتھ یہ چند حوالے نقل کردئیے ہیں۔ جس سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ اس روایت "علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل" کی کوئی حقیقت نہیں۔ اہلسنت اور اہلتشیع کے مستند علماء واکابرین متفقہ طور پر اس کا رد کردیا ہے۔

شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کا اس رویات کو "صحیح" کہنا ایک اجتہادی خطاء اور تسامح ہے۔ ایک مجتہد اگر علم وتحقیق کی بنیاد پر خطاء کرتا ہے تو اس کو ایک ثواب پھر بھی ملتا ہے۔ اسی اپنی کتاب میں آپ نے موضوع احادیث کے خلاف لکھا ہے۔ لہذا عوام ان کا حوالہ اس لیے نہیں دے سکتی کہ ان سے خطاء ہوئی ہے حقیقت میں اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔
اور جو کوئی اس کو بحیثیت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرے گا وہ اپنی آخرت کی فکر کرے چونکہ مدینے کے تاجدار سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:
لا تكذِبُوا عليَّ ، فإنَّهُ مَنْ يكذبُ عليَّ فلْيلِجِ النَّارَ
میری طرف جھوٹی بات منسوب نہ کرو۔ جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ جہنم میں ہوگا۔
(صحیح بخاری، کتاب العلم، باب اثم من کذب علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم), جلد:1، صفحہ:52، حدیث:106
صحیح مسلم، فی المقدمۃ، باب تغلیظ الکذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جلد:1 صفحہ:9 حدیث:1)
اتنی بڑی وعید بیان فرمائی ہے آقا علیہ السلام نے جس نے آقا علیہ السلام کی طرف جھوٹی بات منسوب کی وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔ اس پر اور ببی روایات ہیں۔ لہذا ایسی موضوع من گھڑت روایات کو پھیلانے اور بیان کرنے سے پہلے ایک بار علماء کرام سے لازمی رجوع کریں تاکہ کوئی جھوٹ منسوب کرنے سے آپ بچ سکیں۔
اللہ پاک ہمیں علم دین کی صحیح سمجھ بوجھ عطاء فرمائے۔ دین کی صحیح تفہیم عطاء فرمائے۔ علم وعمل میں برکتیں۔ نازل فرمائے۔ ہمارے اکابر علماء ومحدثین کے درجات بلند فرمائے جو کتابیں لکھ کر گئے جن کو پیمانہ اور معیار بنا کر آج ہم کچھ لکھتے ہیں اور ان کے ہی اقوال سے استدلال کرتے ہیں۔ مولائے کریم ہر طالب علم کو علم نافع اور علم لدنی عطاء فرمائے۔ آپ کی دعاؤں کا طالب سے در بتول زاہرہ سلام اللہ علیہا، خاکسار قاضی سلمان فارسی۔۔۔۔۔۔!!!

Comments

  1. ماشاء اللہ بہت پیارے انداز میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی آپ نے اللہ پاک آپکی اس کاوش کو قبول فرمائے آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. آمین آمین آمین ثم آمین یارب العالمین جزاک اللہ خیرا کثیرا محترم اپنی رائے دی سلامت رہیں شکریہ

      Delete
  2. خوب است ۔۔۔ !!! اللہ پاک آپ کے علم میں دوگنی ترقی عطا فرمائے ایسے ہی راہنمائی کرتے رہیں ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آمین ثم آمین یارب العالمین جزاک اللہ خیرا کثیرا محترم سلامت رہیں رائے دینے کے لئیے

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

توہین مذہب اور بلاد واقوام عالم" تحریر: قاضی سلمان فارسی

تحریک ‏ختم ‏نبوت ‏اور ‏نورانی ‏ڈاکٹرائن ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی