ڈاکٹر ‏اسرار ‏احمد ‏ایک ‏عہد ‏ساز ‏شخصہت



نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا 
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے 
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

                                    14 اپریل 2010ء ۔ یوم وصال پر ملال داعی قرآن، مدعی خلافت، محب پاکستان، عظیم مفکر، مدبر، انقلابی رہنما ڈاکٹر اسرار احمد صاحب۔ 
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب شروع میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کی جماعت "جماعت اسلامی" سے وابستہ رہے مگر بعد میں اپنی تنظیم بنام "تنظیم اسلامی" کی بنیاد رکھی۔ اس کی ذیلی شاخیں اور  کئی شعبہ جات قائم کیے۔

مودودی صحاب کے بعد یہ پہلی شخصیت نظر آتی ہے جنہوں نے اس "انتخابی نظام" اور "جمہوریت" کی مخالفت کی۔ آپ نے "حقیقی تبدیلی" کا جو معیار دیا وہ "انتخابات" کی بنیاد پر نہیں، بلکہ آپ کی پوری فکر میں ہمیں "انقلاب، انقلاب، انقلاب، اور خلافت علی منہاج النبوہ" کا درس ملتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ہی سے متاثر شخصیت "ڈاکٹر طاھر القادری صاحب" ہیں۔ آپ نے اگرچہ "انقلاب" کی بات کی۔ مگر "خلافت" کی بات نہیں کی۔ بلکہ آپ نے "موجودہ جمہوریت" کا غیر جمہوری قرار دیا اور "حقیقی جمہوریت" جو کہ بنفسہ "علامہ ڈاکٹر محمد اقبال" کا نظریہ ہے" کا تصور دیا۔ روحانی جمہوریت کے آپ قائل ہیں۔ (زیر نظر تصویر  اسی کا عکس ہے: یہ ایک خطاب ہے ڈاکٹر طاھر القادری صاحب کا بعنوان: "اسلامی انقلاب کا طریقہ کار" جو کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہوا تھا)

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے "نفاذ خلافت" اور "نظام مملکت علی منہاج النبوہ" کا ایک چارٹر بھی دے دیا تھا۔ جس کے اندر آپ نے کہا کہ:

"تمام بنیادی اصول قرآن و سنت سے اخذ کیے جائیں گے۔ جو خلافت النبویہ کے اصول ہیں وہی اصول آپ بنیادی حیثیت کے طور پہ شامل کریں۔ یعنی ڈھانچہ مکمل اسلامی خلافت کا ہو۔ اس کے بعد جو دیگر مشمولات ہیں فروعی چیزیں وہ آپ جدید نظام سیاست سے اخذ کر سکتے ہیں"

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ انتخابی نظام ڈرامہ ہے۔ یہ انسانوں کی توقیر قدر و منزلت کی تباہی ہے اس کے اندر۔ اگرچہ آپ نے "ووٹ" سے مکمل انکار نہیں کیا۔ مگر "انتخابی اصلاحات" کی بات کی۔ کیونکہ اس نظام میں تو اقبال نے بتادیا کہ:

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے 

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے بھی وہی بات دہرائی اور کہا کہ یہ صرف بندوں کو گننے کا کام ہے۔ لہذا میں اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ آپ نے یہاں تک کہا کہ میرے نزدیک رشد و ہدایت کی جو عمر قرآن نے بیان کی ہے وہ 40 سال کے۔ لہذا میری یہ تجویز ہے 40 سال کے ہی بندے کو ووٹ کی اجازت ملنے چاہیے۔ اگرچہ اس پر آپ نے سختی نہیں کی ایک اختیاری آپشن دیا کہ ایسا ہو تو بہتر یے۔ 

اپنی پوری جدو جہد کے اندر آپ نے ہمیشہ علماء سے شکایت کی۔ کیونکہ علماء نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ مالکی اور غیر مسلکی علماء نے آپ کو تن تنہاء اکیلا میدان کا کر کھڑا کردیا تھا۔ امریکہ اور یورپ کی تمام غلاظتوں اور پاکستانی امراء و سیاہ ست دان لوگوں کی غلامی سے بھی پردہ ہٹادیا۔ (کچھ دن پہلے امریکہ کے خلاف آپ کا خطاب ایک بار پھر سے اپلوڈ ہوا تو آپ کا یوٹیوب چینل تک اڑا دیا۔ جس میں آپ نے بیان کیا تھا کہ پاکستان کے سیاہ ست دان اور امراہ و فوجی جرنیل امریکہ کے سامنے سرنڈر کر چکے ہیں یہ اس کی غلامی سے کبھی نہیں نکل سکتے)۔

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نا صرف ایک انقلابی رہنما تھے بلکہ ایک عظیم مفسر قرآن بھی تھے۔ آپ نے کئی تصانیف صفحہ قرطاس پر رقم کرکے اس امت کے لیے عظیم خزانہ چھوڑا ہے۔

آج قوم اس انتخابی سیاست اور یہ کوریڈور جتنے بھی ہیں۔ ان سے سے قوم بے زار ہو چکی ہے۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ تمام مذہبی جماعتیں 1857ء، 1904، 1906، 1954ء، 1973ء  1984ء کی یاد تازہ کریں۔ آج اتحاد ناگزیر بن چکا ہے۔ اگر اتحاد نہیں کرو گے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچتے رہو گے۔ تو یاد رکھنا کبھی 12 اپریل سانحہ نشتر پارک دیکھنے کو ملے گا۔ کبھی  17 جون کو سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوتا رہے گا۔ کبھی 18 اپریل کو سانحہ یتیم خانہ چوک نظر آئے گا۔ یاد رکھ لیں لکھ لیں اتحاد کے بغیر آپ سب نے پارہ پارہ ہو جانا ہے۔ اگر اہلسنت والجماعت کا آپس میں اتحاد ہو جائے تو یہ بھی غنیمت سے کم نہیں۔ کم از کم اہلسنت والجماعت کی تمام جماعتیں اور تنظیمیں اس ایک نقطہ پر متفق ہونی چاہئیں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ پھر ایسا نہ ہو کہ سورہ حج کی آیت:40 کا اطلاق آپ سب پر۔ اور آپ کی مسجدوں کو تالے لگا دیے جائیں۔ اس وطن عزیز کے اندر سیکولر اور لبرل طبقہ اپنے پنجے گھاڑ لے۔ کیونکہ ظلم اور فساد کے خلاف جتنا دیر سے اٹھو گے اتنا زیادہ نقصان اور تکالیف برداشت کرنیں پڑیں گیں۔

متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن کو
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو

 

تحریر: قاضی سلمان فارسی

Comments

Popular posts from this blog

توہین مذہب اور بلاد واقوام عالم" تحریر: قاضی سلمان فارسی

تحریک ‏ختم ‏نبوت ‏اور ‏نورانی ‏ڈاکٹرائن ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی

"روایت (علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل اور شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے تسامح اور خطاء)"تحقیق: قاضی سلمان فارسی