آئین کا آرٹیکل 3 اور ریاست کی غیر سنجیدگی
تحریر: قاضی سلمان فارسی
ذریعہ معاش وجودِ انسانی کی بقا کا ضامن ہوتا ہے۔ سب کے لیے یکساں مواقع ریاست پیدا نہیں کرسکتی لیکن جو جس کام میں ملقہ رکھتا ہو اس کو اسی طبقے کے افراد کے ساتھ کوئی روزگار فراہم کرنا ریاست کی اولین زمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے ہوتا ہے کہ آئین پاکستان کا پہلا آرٹیکل اس کے نام پر مبنی ہے اور دوسرا آرٹیکل ریاست کے سرکاری مذہب کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے فوراً بعد "آرٹیکل 3" آتا ہے جس کے اندر ایک ریاست کی اولین زمہ داری کو نقل کیا گیا ہے۔ آئین پاکستان میں درج الفاظ کچھ اس طرح کے ہیں:
"مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تحمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔"
اس آرٹیکل کے اندر ریاست کی سب سے پہلی زمہ داری اور شہری کا پہلا حق لکھا گیا ہے جو اس بات پر مہر ثبت کرتا ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہر ہر شہری کو اہلیت کی بنیاد پر روزگار فراہم کرے اور کام کے مطابق معاوضہ فراہم کرے۔ اگر ریاست اپنی سب سے پہلی زمہ داری ادا کرنے کی اہل نہیں یا ادا کرنا چاہتی نہیں تو پھر اس ریاست کا مقصد کیا ہے؟؟ آج اگر ملک کے اندر دیکھیں تو ہر طور بھوک و افلاس نظر آتی ہے۔ لوگ فاقوں پر مجبور ہوگئے ہیں۔ روزگار نہیں اس قدر قحط سالی ہوچکی ہے کہ اب سفید پوش طبقے کے پاس سوائے موت کے اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ اس وقت ملک کی مجموعی شرح خواندگی 68٪ کے لگ بگ ہے یعنی ہماری عوام 70٪ تعلیم یافتہ ہے تو پھر بے روزگاری کیوں ہے ؟ معکوس سمت میں دیکھیں تو حکومت اپنے جھوٹے دعوے اور سروے کے مطابق یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پاکستان کے اندر بےروزگاری کی شرح 6 سے 8 فیصد تک ہے حالانکہ کثرت کے ساتھ نوجوان طبقہ بھی بے روزگار بیٹھا ہوا ہے۔ اگر کوئی انفرادی سطح پر کچھ روزگار کرے تو فبہا ورنہ ریاست مکمل ہاتھ کھڑے کر چکی ہے۔
ریاست کو آرٹیکل 3 یا تو آئین سے نکال دینا چاہیے یا یا پھر اس پر عمل کو ناگزیر بنانا ہوگا۔ بے روزگاری کے اس عالم میں مہنگائی سے تنگ آ کر ہزاروں افراد خودکشی پر مجبور ہوچکے ہیں۔
ہندوستان کے اندر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تین بڑی کمپنیاں موجود ہیں وہاں IT کا شعبہ حد درجہ ترقی کرتا جارہا ہے اور ہمارے ملک کے اندر ابھی تک انٹرنیٹ سروس بثی بحال نہیں ہوئی صحیح طرح سے۔ کبھی سوشل میڈیا بلاک کردی جاتی ہے تو کبھی انٹرنیٹ سورس میں تعطل پیدا کردیا جاتا ہے۔روزگار کے مواقع پیدا کرنا تو دور جو فری لانسرز بزنس کرتے ہیں انٹرنیٹ کی دنیا میں وہ لوگ بھی بے روزگار ہوچکے ہیں امریکی مشہور کمپنی "فائیور" نے انٹرنیٹ کی بندش کے باعث پاکستانیو کے لیے فری لانسرز اویلیل اسٹیٹس ختم کردیا ہے جب تک یہ بندش ختم نہیں ہوتی تب تک پاکستانی کام نہیں کر پائیں گے اور کم و بیش 40 ہزار افراد بے روزگار رہیں گے۔ اسی وجہ سے گزشتہ ایک سال کے اندر ڈیڑھ کروڑ پاکستانی پاکستان چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ریاست کو اس پر توجہ دینی ہوگی ورنہ عین ممکن ہے تمام قابل تعلیم یافتہ اور با صلاحیت نوجوان ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ اللہ رب العزت اپنا کرم کرے۔
Comments
Post a Comment