دعوت اسلامی ایک انقلابی، جہادی اور عاشق رسول (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) تحریک مگر کیسے___؟؟؟تحریر: قاضی سلمان فارسی ‏

                  کم وبیش آج سے 300سال قبل دنیائے اسلام پر ایک خطرناک یلغار کی صورت میں سارے کفار امت مسلمہ کو دسترخوان سمجھ کر ٹوٹ پڑے، مسلمانوں کی تہذیب، تمدن، دین، مذہب، تبلیغ، تدریس، وعظ ونصیحت، تعلیم و تربیت ، تحقیق وفن ہر ہر چیز تحس نحس کرکے رکھ دی گئی، امت کو زبوں حالی کا شکار کردیا گیا۔ ہمارا بنیادی ڈھانچہ فتنوں کی زد میں جکڑ دیا گیا۔ مذہبی طور پر ہمارے اندر اپنے لوگ شامل کرکے فرقہ پرستی کو فروغ دیا جانے لگا۔ اور مکمل بانجھ کرکے رکھ دیا۔ مسلمان منقسم ہونے لگے تھے انتشار پھیل رہا تھا۔ اور سیاسی طور پر ایک اتحاد سامنے آیا کفار کا جس نے ہندوستان سے سلطانیہ مغلیہ کا خاتمہ جس کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کا ایک بازو کٹ گیا۔ اور پھر 700سسلہ سلطنت عثمانیہ کو بھی بدقسمتی سے تخت وتاراج کردیا گیا۔ جس میں کئی ممالک اپنے بھی شامل تھے۔ تیر کھا کر دیکھا تو پیچھے دشمن کی صفوں میں اپنے یار بھی کھڑے تھے۔ اس کے بعد ایک دور آتا ہے جس کو "استعماریت (نوآبادیاتی عہد)" کہا جاتا ہے۔ جہاں دنیا کے اندر مسلمانوں کو توڑا گیا۔ اور خطہ ارض پر نئی نئی کالونیاں (چھوٹے چھوٹے آزاد ممالک اور ریاستیں) وجود میں آئیں۔

مسلمانوں کی سپر پاور کو ختم کرکے برطانیہ نے جنم لیا۔ "سامراجیت" (Imperialism) کا دور شروع ہوا، جس نے ہندوستان کے اندر قدم جمائے اور ظلم وبجر کی انتہا کردی تھی۔ مسلمان جو کچھ عرصہ قبل حاکم تھے وہ آج محکوم ٹھہرے۔ وقت گزرتا گیا ہم نے لاشعوری میں فرقہ وارانہ تشدد پر مبنی نظریات کو ہی پالنا ہوانا شروع کردیا، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کریں۔ لیکن اس دور میں ایک مرد قلندر پیدا ہوا افق پر ایک نام روشن ہوا۔ صبح نور کے اندر وہ نسیم سحر آئی جس نے مسلمانوں کو تازہ دم کردیا۔ خواب غفلت سے جگا دیا۔ اور 1973ء میں ایک مذہبی اتحاد قائم کیا جس میں دہوبند، اہلحدیث، شیعہ اور بریلوی چاروں شامل تھے ان کا مقصد بڑھتے ہوئے قادیانی انقلاب اور فتنے کی سرکوبی کرنا تھا اور یہ اتحاد اس وقت اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوا۔ اور چلتے چلتے 1984ء میں اسی اتحاد کی وجہ سے فتنہ قادیانیت کو مزید پیچھے دھکیل دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد عالمی قوتوں نے اس میں روح پھونکی اس کی پرورش کی دنیا کے اندر دو طرح سے کام کرنا شروع کردیا ایک طرف 9/11 کا ڈرامہ رچا کر مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کردیا تو داری طرف احمدی مسلم کمیونٹی کے نام پر اسی کو اسلام کہا جانے لگا۔ اور عیسائی مبلغین (Christian Missionaries) دنیا کے کونے کونے میں اربوں ڈالر دے کر چرچ گرچہ گھر اور کلیسے بنانے لگی۔ صرف افریقہ کے اندر 3لاکھ گرجے بنائے۔ اسی طرح دنیا کے اندر دعوت وتبلیغ عیسائیت کی اور اسلام مخالف بیانیہ شروع کردیا تھا۔ مسلمانوں کے پاس اس وقت کچھ نہیں تھا جو حقیقی معنوں میں اس وقت کردار ادا کرسکے۔

دعوت اسلامی بحیثیت جہادی تحریک؟

اس وقت امام انقلاب امام شاہ احمد نورانی نوراللہ مرقدہ نے اس کو محسوس کیا۔ ان کی بصارت کو سلام جو نا صرف سیاسی اتحاد کے لئیے کوشاں رہے مگر مذہبی اتحاد میں بھی آپ کے کام نمایاں ہیں۔ انہوں نے تبلیغ دین (جو ان کے والد مرحوم ومغفور شیخ الاسلام و المسلمین خلیفہ اعلی حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ کا مشن تھا اس کے) لئیے کوشش شروع کی اور آج سے 40سال قبل کراچی میں ہی اپنے گھر پہ ایک اجلاس طلب کیا جس میں مختلف علمائے کرام اور بڑے بڑے اکابرین نے شرکت کی۔ جس کی صدارت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ نے کی۔ انڈیا سے سلطان المناظرین محقق اہلسنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے شرکت کی، مجاہد اہلسنت علامہ جمیل احمد نعیمی علیہ الرحمہ بھی موجود تھے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین علیہ الرحمہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ تبلیغ واشاعت دین کے لئیے اہلسنت کے عقائد کی ترویج کے لئیے اسلام کا حقیقی معنوں میں پیغام پہنچانے کے لئیے ۔ کفار کے مدمقابل ایسی تحریک لائی جائے جو ان سب کا منہ بند کردے۔ اس وقت عیسائی مبلغین اور قادیانی فتنہ پرور اسکالرز جا تیزی سے دین پر حملہ آور تھے اور دوسری طرف امریکہ نے 9/11کا ڈرامہ رچا کر دنیا سے اسلام کو ختم کرنا چاہا تھا۔ اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے، اسلام کو دنیا سے مٹانے، نوجوانوں کے اندر سے دین کی روح نکالنے کی سازشیں اور مکروہ چالیں جنم لے رہیں تھیں۔ علمائے کرام کے خیالات بدلنے لگے تھے کوئی اپنے بیٹے کو دینی درسگاہ بھیجنے کے لئیے رازی نا تھا۔ پیران کرام بھی کہتے جدید تعلیم دو بچوں کو انجینئرنگ سکھاؤ ڈاکٹر بناؤ۔ دین سے بےزاری عروج پر تھی۔ سنت کو لا پشت ڈالا گیا تھا فرائض و واجبات کی ادائیگی ہی ختم ہونے جارہی تھی۔ نام کے ربیع الاول میں عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا دعویٰ کرتے پھر رمضان میں جاکر نماز پڑھتے باقی کوئی کام تک نہیں رہا تھا۔ اس وقت سب سے بڑا جہاد احیائے دین تھا احیائے سنت تھا، دین کے تشخص کو تعلیمات اسلامیہ کو بحال کرنا ہی سب سے بڑا جہاد تھا، جہاد الاکبر تھا۔ اس دور میں 2ستمبر 1981ء کو فیصلہ کیا گیا کہ صرف ان ناپاک عظائم کے مقابلے کے لئیے ایک تحریک بنائی جائے جو اس کفار کے حملے کا جواب دے کر جہاد کرے۔ فیصلہ جو ہوا وہ تھا کہ:

"علمائے کرام نے باہنی بحث و مشاورت کے بعد "دعوت اسلامی" کے نام سے تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جو خالصا مذہبی ہوگی۔ یہ تنظیم سیاسی وغیر سیاسی سب نوجوانوں کے اعمال اور عقائد کی اصلاح کرے گی """اور اس کا سربراہ ``امیر اہلسنت`` کہلائے گا۔ اس کی امارت کے لئیے بالترتیب علامہ ارشد القادری، مفتی جمیل احمد نعیمی اور مفتی وقارالدین کا نام تجویز ہوا۔ لیکن یہ بزرگ امارت کے لئیے تیار نہ ہوئے۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ فی الحال مفتی وقارالدین صاحب "دعوت اسلامی" کے کام کو آگے بڑھائیں گے پھر جس نوجوان کو سمجھیں امیر مقرر کردیں۔ مفتی وقارالدین صاحب نے مولانا محمد الیاس ،جو ان دنوں آپ کے جامعہ امجدیہ زیر تعلیم تھے، کو امارت کے لئیے موزوں تصور کیا۔ قائد اہلسنت امام نورانی کی اجازت سے مولانا محمد الیاس کو امیر "دعوت اسلامی" مقرر کردیا اور ساتھ ہی بیعت وخلافت سے ببی سرفراز فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

[مولانا محمد یاسین قصوری نقشبندی، تذکرہ امام شاہ احمد نورانی، صفحہ/221]

علامہ محمد الیاس قادری کو اس عظیم کام کے لئہے، اس جہادی کام کے لئیے جو چاول مذہبی ہو رضائے الٰہی کی خاطر ہو کفار کے مقابلے میں ہو، کے لئیے چنا گیا۔ آپ کے سر پر اس کی امارت سجائی گئی اور کندھوں پر اتنا عظیم بوجھ لاد دیا گیا امت مسلمہ کا۔ اس وقت اہلسنت کے پاس تو کچھ تھا نہیں اس طرح سے باقی اسلام کی حالت کو دیکھا جاتا تو تو صرف چند ایک تنظیمیں تھیں جو بھی خطابات تک محدود تھیں۔ لیکن دعوت اسلامی نے بالکل بنیاد سے شروع کیا۔ لوگوں کا خطاب کے ذریعے اپنے پاس لایا۔ خدا سے قطع تعلق ہوئے نادان بندگان خدا کو ان کے رب سے لو لگانے کا طریقہ سکھایا۔ ربوبیت الوہیت اور وحدانیت کا درس دیا۔ لوگوں کی دینی روحانی اور اعتقادی اصلاح کی تب جاکر اب ہم الحمدللّٰہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس دعوت اسلامی ہے جس نے کروڑوں دلوں کو سیدھا کردیا ہے۔یہ تنظیم بہت کم عرصہ میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکی ہے اس وقت کم وبیش 100سے زائد ممالک کے اندر وہ پیغام پہنچا رہی ہے ۔ کفار جن کا مقصد دین سے دور کرنا تھا مسلمانوں کو وہ آج یہ دیکھ کر حواس باختہ ہوجاتے ہیں کہ جن کو نماز سے دور کرنا تھا وہ اپنی قمیض کے اندر مسواک کی الگ جیب بنارہے ہیں۔ جن کو سنت سے دور کرنا تھا وہ مستحبات کو ترک کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ دین کے پکے ہوچکے ہیں۔ ان کی آنکھیں اس وقت دنگ آچکی ہیں۔ اور مجبورا دنیا کے بہت بڑے تحقیقی ادارے Pew Research Centre کو اس پر تحقیق کرنا پڑی کہ اتنا جلدی اسلام کیسے سنبھل گیا، آخر وجہ کیا ہے جب ان لوگوں نے تحقیق ختم کی تو کہنے لگے اگر یہ تنظیمیں اس طرح دین کا پیغام پھیلانے لگیں تو 2050ء تک یورپ کا مذہب اسلام ہوگا دنیا پر مسلمان سب سے زیادہ ہوجاییں گے۔ ریسرچ کی رپورٹ آپ یہاں سے دیکھ سکتے ہیں:

https://www.google.com/amp/s/www.pewresearch.org/fact-tank/2017/08/09/muslims-and-islam-key-findings-in-the-u-s-and-around-the-world/%3famp=1

اس وقت دنیا دعوت اسلامی نے خاموشی سامنے کام کرکے دنیا کی ہزاروں مشنریز کا رخ موڑ دیا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوجاییں گے کہ دعوت اسلامی صرف ایک جہت میں کام نہیں کررہی اس وقت کم وبیش 108شعبہ جات کے اندر دعوت اسلامی اپنا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ ہر آئے دن نیا کام شروع کرتے ہیں۔ تعلیمی منصوبے بنارہی ہے۔ شعبہ جات میں سے چند مشہور اور معروف یہ ہیں:-

1__مجلس مدنی قافلہ
2__ جامعۃ المدینہ للبنین
3__ جامعۃ المدینہ للبنات
4__ مجلس تحقیقات شرعیہ
4__ تخصص فی الفقہ (مفتی کورس)
5__ مجلس تفتیش کتب ورسائل
6__ المدینۃ العلمیہ
7__ ماہانہ فیضانِ مدینہ
8__مدنی چینل
9__ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ
10__ سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ
11_ شعبہ تراجم کتب
12__ مکتبۃ المدینہ
13__ شعبہ تحقیق و تخریج
14__ المدینہ لائبریری
15__ مجلس بیرون ملک
16__ شعبہ امیر اہلسنت
17__ شعبہ فیضان قرآن
18__ شعبہ فیضان حدیث
19_ شعبہ کتب اعلی حضرت
20__ شعبہ درسی کتب
21__شعبہ فیضان مدینہ مذاکرہ
22_ شعبہ فیضان صحابہ
23__ شعبہ فیضان صحابیات
24__ شعبہ اصلاح
25__ شعبہ مرکزی مجلس شوری


یہ صرف چند نام لکھے گئے ہیں ورنہ ان کے علاؤہ کئی شعبہ جات کے اندر دعوت اسلامی دین متین کا کام کررہی ہے میں کہنا چاہتا ہوں کہ واللہ باللہ ثم تاللہ دعوت اسلامی اس دور کی ایک جہادی تنظیم ہے انقلابی تنظیم ہے جس نے کفر کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دئیے ہیں۔ نعت بازی کو ترک کرکے عملی کام کرکے دکھایا ہے۔

"دعوت اسلامی بحیثیت عاشق رسول جماعت"

جس وقت ہر طرف سے شرک وبدعت کے فتوے آرہے تھے۔ لوگو ان کے جواب میں ہی لگے ہوئے تھے۔ دین بنیادی طور پر زندگی سے نکلتا جارہا تھا۔ عالم کو مولوی کہہ کر ٹھکرایا جارہا تھا، عالم کے نام سے چڑ آجاتی تھی۔ انبیاء علیھم السلام کے وارثین کے ساتھ نااروا سلوک تھا۔ سنت ہماری زندگی سے ختم ہوتی جارہی تھی۔ احیائے سنت وقت کے حساب سے فرض ہوچکی تھی۔ اس دور میں عشق معیار صرف نعرے بازی تک موقوف ہونے لگا تھا تب ایک مرد قلندر ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ نے اس ہوا کا مقابلہ کیا سارے تیر، ساری گاکیاں، ساری تنقید اپنے اوپر اپنے سینے پر قبول کرلی۔ مگر دین کا مذاق نا بنانے دیا، شعائر اسلام کو معدوم ہونے سے بچایا۔ تب تو لوگ تضحیک آمیز رویہ رکھتے تھے یہ کہاں ماضی میں گھم ہو آؤ دور جدید میں۔ سیکولر ولبرل طبقہ دین مخالف طبقہ دین بےزار طبقہ مکمل مخالفت کررہا تھا، لیکن وہ مجاہد اسلام ہر ہر طعنہ سہتا رہا غیروں کی مکاریاں اور اپنوں کی دعا بازیاں سہتا رہا۔ اور احیائے سنت میں مصروف رہا کیونکہ اس وقت تقاضہ جدیدیت کا نہیں تھا نا ہی قدیمیت کا تھا۔ اس وقت تقاضہ تھا اسلام کی تعلیمات کو اجاگر کرنے کا۔ لوگ جو خدا بھول بیٹھے تھے ان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد کرواکے خدا کی شناسائی کروانی تھی۔

لوگوں کو عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لانے میں امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری رضوی صاحب نے دعوت اسلامی کے پلیٹ فارم سے انتھک کوششیں کیں۔ درود شریف کے حلقات قائم کئیے۔ گھر گھر ، قریہ قریہ۔ گلی گلی جا کر لوگوں کو تبلیغ کی دین کی طرف مائل کیا۔ میں بلوچستان کو جب دیکھتا تھا ہر طرف گمراہی تھی دین کا نام ونشان تک نہیں تھا لوگ فقہ کلمہ گو تھے میں خود گواہ ہوں ان حالات کا لیکن الحمدللّٰہ آج شکر کرتا ہوں خدائے ذوالجلال نے اس جلالی مرد کو یہ قوت دی توفیق دی کہ اس نے بلوچستان جیسے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں آنے والے نادان لاشعور لوگوں کی اعتقادی اور روحانی اصلاح کے لئیے دعوت اسلامی کو چنا۔ آج ہر جگہ محافل میلاد ہوتی ہیں پہاڑوں کے اندر بھی جائیں تو وہاں لوگ نمازی نظر آتے ہیں اور ساتھ میں ایک مسجد بنی ہوتی ہے جہاں کوئی بھائی اپنی ساری عیش وعشرت کی زندگی وقف کرکے وہاں سنگلاخ پہاڑوں میں دین کی خدمت کے لئیے پہنچ جاتا ہے۔ 

ہمارے پاس مدرسوں میں پڑھانے کے لئیے قدیمی کتب خانہ اور مکتبہ رحمانیہ کی کتب اور شروحات ہوا کرتیں تھیں اہلسنت کا اپنا نصاب نہیں تھا دعوت اسلامی نے 7-8سالوں کے اندر اندر اس طرف بہت زور سے شدت سے توجہ دی اور پورا نواب اپنا بناکر شائع کروایا جو آج ہمارے مدارس میں جاری کردیا گیا ہے۔ اعلی حضرت امام اہلسنت پیکر عشق حامی سنت قاطع شرک و بدعت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کو لوگ صرف اتنا جانتے تھے کہ سب سے اعلی ہمارا نبی نعت ان کی ہے کسی نے زیادہ جان لیا تو مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام یاد کرلیا یا فتاوی رضویہ کا صرف نام سنا تھا۔ دعوت اسلامی نے آ کر امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا بتایا کہ ہند کی سرزمین پر بھی ایک شیر خدا موجود ہے۔ دنیا کے اندر آپ کی کتابیں شائع کیں الگ شعبہ جات قائم کئیے آج بچہ بچہ امام اہلسنت کو جانتا ہے اس میں دعوت اسلامی کا بہت بڑا کردار ہے۔

تحرحر طویل ہوگئی ہے باتیں ہزار ںاقی ہیں بس اتنا کہوں گا زندگی میں قدر کرلیں مرنے کے بعد ہر کوئی کہتا ہے وااہ واااہ کیا بندہ تھا۔ جنازے کو کندھا دینے سے بہتر ہے ابھی کندھا ملالیں۔ خامیاں ہر ایک کے اندر ہوتی ہیں یہ وقت دو خامیوں کے دیکھنے کا نہیں 8خوبیوں کی تلاش کا ہے۔ میں مرید نہیں ہوں نا ہی عطاری لیکن بیعت تبرک کی ہوئی ہے الحمد للّٰہ۔ 

اللہ کرم تجھ پہ کرے ایسا جہاں میں
اے دعوت اسلامی تری دھوم مچی ہو

Comments

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. اچھی تحریر لیکن ایک بات آج کہہ رہا ہوں جو کہ مجھے ایک بہت درد دل رکھنے والے دوست نے کہی تھی کہ سب اچھا ہے کہ چکر میں ہم اپنا بہت نقصان کر رہے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد اس کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہوتا

    ReplyDelete
    Replies
    1. سب اچھا ہے ایسا کسی نے نہیں کہا۔ اپنے جو ہیں وہ اچھے ہیں۔ ہم اس چکر میں کہ صلح کلیت کی مخالفت کریں اپنوں کو ہی صفوں سے نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ نا تو یہ کہ سب کو صحیح کہا جائے اور نا ہی اتنی تنگ نظری کہ سب کو اپنے سوا برا سمجھا جائے ۔۔۔ معتدل مزاجی میانہ روی ہی اسلام کا حسن ہے ۔۔

      Delete
    2. ماشاءاللہ عزوجل اللہ پاک آپکو مزید برکتیں عطا فرمائے اور ہمیشہ حق کے ساتھ استقامت سے کھڑے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اللھمہ آمین

      Delete
    3. آمین ثم آمین یارب العالمین جزاک اللہ خیرا کثیرا محترم سلامت رہیں بہت بہت شکریہ آپ نےاپنی رائے دی

      Delete
  3. عمدہ تحریر🌺۔اللہ پاک آپ کے علم وحکمت اور قلم میں مزید برکت فرمائے۔آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. آمین ثم آمین یارب العالمین جزاک اللہ خیرا کثیرا سلامت رہیں

      Delete
  4. ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاہ رہی ہے ۔ اللہ اپنے کام خود کروانے میں کامل ہے اس نے ہر بندے کے ذمےخاص کام لگائے ہیں جو اس کو کرنے میں ماہر ہو ایسے ہی دعوت اسلامی والے ہیں وہ اپنی میٹھی زبان نرم لہجوں سے لوگوں کو اللہ اور رسولﷺ کے دین کی طرف بلاتے ہیں ایسے ہی ہر بندہ اللہ نے چن رکھا ہے جس سے وہ اپنا کام خود انجام دلوائے گا جیسے اس دور کا مردِ قنلدر خادم رضوی سے لیا لوگوں کے دلوں سے نکلا عشق مصطفیﷺ دوبارہ اجاگر کیا جو دین کی باتیں یا جو حدیث ہم نے سنی ہی نہ تھی وہ مردِ مجاہد سب کے دلوں میں زندہ کر گیا ۔ . ۔۔ بالکل درست کہا ہر بندے کا اپنا طریقہ ہے کام کرنے کا ہمیں فتویٰ لگانے کی بجائے عقل سے کام لینا چاہیے

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی جی سر یہی بات ہے۔ ہر بندے کا اپنا کام ہے ۔ ایک شعبہ نہیں ہے دین کا جس پر کام کیا جائے ہر ہر شعبے میں ضرورت ہے جزاک اللہ خیرا سلامت رہیں

      Delete
  5. ماشاءاللہ 💯 سلامت رہیں

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

توہین مذہب اور بلاد واقوام عالم" تحریر: قاضی سلمان فارسی

تحریک ‏ختم ‏نبوت ‏اور ‏نورانی ‏ڈاکٹرائن ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی

"روایت (علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل اور شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے تسامح اور خطاء)"تحقیق: قاضی سلمان فارسی