ماضی میں احیائے اسلام کی کوششیں اور نتائج


مختلف ادوار میں امت مسلمہ کی زبوں حالی کا تدارک اور کھویا ہوا عروج واپس پانے کے لئیے کئی تحاریک نے اپنا اپنا حصہ ملایا، گزشتہ تین صدیوں سے اس میں مختلف تنظیمات اور علماء نے اپنے تئیں کاوشیں جاری رکھیں۔ سب کا مدعا یہی تھا کہ اسلام کو کسی نہ کسی طرح سے غالب کیا جائے۔ سب کے سامنے مقصد یہی تھا کہ اسلام کو کھویا ہوا اقتدار، عروج، وہ سنہری دور اب دوبارہ کیسے ملے۔ اس میں جن تنظیمات اور تحریکوں نے حصہ ملایا ان کی چار ممکنہ اقسام ہیں:


1__سلفی طبقہ


ان لوگوں نے کہا کہ دین اسلام کی سربلندی روایات قدیمہ سے ہی ممکن ہے، ان لوگوں نے جدیدیت اور جدت دونوں کو بدعت کہہ کر تمام چیزوں کا انکار کردیا اور کہا کہ دین اسلام اگر بلند ہوسکتا ہے تو اپنی روایات قدیمہ اصل تعلیمات ہی کے ساتھ ہوسکتا ہے لہذا باقی تمام اشیاء حوادث زماں کو ترک کیا جائے، یہ نظریات اتنی شدت اختیار کرگئے کہ پھر ان لوگوں نے مباح اور مستحب چیزوں کو بھی بدعت کہا اور توحید کے اندر غلو کی وجہ سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی کافی حد تک بدعت کہہ ڈالا اس طرح ان لوگوں کی سوچ کے مطابق ہم شاید کھویا ہوا وقار پالیں گے_ 


2__سیکولرطبقہ


ان لوگوں نے پھر سلفیت کے مدمقابل آکر کہا کہ روایات کو چھوڑ کر جدیدیت ہونی چاہیے۔ جب دوسری طرف سے ان لوگوں نے دیکھا کہ شدت آرہی ہے تو یہاں سے سیکولر سوچ کے مفکرین نے اپنا لائحہ عمل تخلیق کردیا اور وہ تو مر گئے خود۔ لیکن بعد والوں نے اس میں مزید جدت لائی اور دین اسلام کے ہر پہلو پر سوالات اٹھانے شروع کردئیے ہر چیز کے اندر ان کو جدت چاہیے تھی، حتی کہ اس انتہا تک پہنچ گئے کہ اب ہمیں سیاست میں جدت چاہیے مذہب روایات قدیمہ کا مجموعہ ہے اس کو سائیڈ کردیں۔۔ اس طریقے سے ان کے نزدیک پھر ایک ہی طریقہ باقی رہا کہ اسلام کو صرف نام تک محدود رکھا جائے اور باقی کام سارا سیکولر بنیادوں پر کریں اس طرح شاید برائے نام اسلام اولین فہرست میں آجائے۔


3__لبرل طبقہ


ان لوگوں نے پھر امت مسلمہ کے مسائل کو سامنے رکھا۔ اور ان کے نزدیک سارے مسائل کو ملا کر صرف ایک مسئلہ بنتا ہے جس کو (سیاسی مسئلہ) کہا جانے لگا۔ ان کے نزدیک دین اسلام کو اگر آگے لانا ہے تو پھر ہمیں سیاست کے اندر اتحاد کرنا پڑے گا۔ پھر چاہے اس کے لئیے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے چائے مذہب اور دین کی تعلیمات میں جدت لانی پڑے، آزادی لانی پڑے سب کچھ کریں لیکن اتحاد بلاد الاسلامی ہونا چاہیے تاکہ اسلام اپنا کھویا ہوا سیاسی اقتدار واپس لائے۔


3_2.___لبرلز کا دوسرا طبقہ


ان کے ساتھ ہی ایک اور گروپ سامنے آیا لبرل مفکرین کے اندر ہی جن لوگوں نے کہا کہ صرف سیاست نہیں بلکہ جدید افکار عصری نظریات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو جو تعلیم دی جائے وہ تعلیم اس بنیاد پر دی جائے کہ ان کے اندر انقلابی سوچ پیدا ہو دین اسلام کی روح ان کے اندر داخل ہوجائے۔۔ ان کے سامنے جو مسئلہ تھا اور بیک وقت سیاست اور تعلیم و تربیت دونوں کا تھا اس پر ان لوگوں نے کام کیا اور کسی حد تک کامیاب رہے۔


4__ اسلامائزڈ نالج اینڈ پروڈکشنز آر ڈسکوریز


اس کے بعد ایک اور گروپ معرض وجود میں آیا۔ کیونکہ باقی تین گروپس تو فیل ہوچکے ان کی جد وجہد سے نا تو اسلام کو وہ مقام ملا نا ہی کوئی خاص فرق پڑا تو ان لوگوں نے پھر یہ کیا کہ جو جو مغربی دنیا کام کرتی ہے جو تعلیم دیتی ہے، جو چیزیں بناتی ہے، ہم نے ان کو اسلامائزڈ کرنا یے، تعلیم کو اسلامی چیزوں کے ساتھ ملا کر ہمیں اپنی نسل نوع کو دینی چاہیے، جو جو چیزیں ان کی ہیں ان کو اسلام کا پردہ چڑھا کر ہمیں آگے پھیلانی چاہیں، الغرض پھر ایسا ہوا کہ اب آپ کو ہر جگہ نظر آتے ہیں اسلامی کالج، اسلامی بینک، اسلامی فلاح وبہبود، اسلامی ٹرسٹ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔


یہ چار فکری ادوار گزرے ہیں لیکن کوئی بھی کسی بھی حد تک کامیاب نہیں رہ سکا سوائے کچھ چیزوں کے۔۔۔


مختلف تنظیمات جو خلوص کے ساتھ اٹھیں ان کو دہشتگرد قرار دے دیا گیا۔ ان کے بندوں کو اٹھا لیا گیا، تحریک کا پابند کردیا گیا، دنیا سے ان کے اوپر آپریشن کردیا گیا۔


آپ چھوٹی سی مثال (اخوان المسلمین) کی لے لیں۔ ان کا بنیادی نظریہ تعلیمی تربیتی اور سیاسی تھا لیکن جب حکومت نے دیکھا کہ یہ لوگ اب اسلام کی بات کررہے ہیں۔ دنیا کا اقتدار لینے کی بات کررہے ہیں، تو دنیا نے ان کے ساتھ ایسی گیم کھیلی کہ ان کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیا ، ان کو شہید کیا گیا، جیلوں میں ڈالا گیا زد وکوب کیا گیا اور قائدین کو گرفتار کیا گیا تب ان لوگوں نے حکومتی چالوں اور سازشوں کا لاشعوری میں شکار ہوکر ہتھیار اٹھایا اور اس طرح بین الاقوامی سطح پر اخوان المسلمین کو ناصرف دہشتگرد قرار دیا گیا بلکہ 1949ء میں اس تنظیم کے بانی امام حسن البناء کو بھی شہید کردیا گیا، اور افسوس انٹرنیشل تنظیم چلانے والے امام حسن البناء کا جنازہ اٹھانے کے لئیے کوئی مرد نہیں آیا ان کا بوڑھا باپ اور گھر کی عورتوں نے قبرستان پہنچایا۔۔


اس کے بعد جب جب اس میں سید قطب شہید جیسے لوگ آئے تو ان کو بھی جمال ناصر جیسے بدبخت آمروں کی نظر ہونا پڑا صرف ایک کتاب لکھنے کے جرم میں آپ کو بھی سزائے موت سنادی گئی_ الغرض ایسے کئی علماء ہمارے شہید کئے گئے۔۔ جن کی روحیں آج تک ہم سے ہمکلام ہوتی ہیں۔ ان کا لہو آج بھی ہمیں کہہ رہا ہے کہ اٹھو اس دنیا کے مسلمانوں کو جگا دو۔


اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ ‎#عرب_نیشنلزم کا دور آیا۔ وہاں جس نے ( (Political Islamکی بات کی۔ چاہے وہ قذافی ہو چاہے شاہ فیصل ہو یا پھر صدام حسین ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔


اگر یاسر عرفات جیسے لیڈر آتے ہیں تو ان کو بھی زہر دے کر راستے سے ہٹادیا جاتا ہے۔ حال ہی میں اخوان المسلمین کے ہی لیڈر محمد مرسی سابق مصری صدر کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ اسلام کے سیاسی نعرے اور دور اقتدار، اسلامی انقلاب کے نام پر جو جو تحاریک اور شخصیات اٹھیں ان کو سازشوں میں پھنسا کر راستے سے پتھر کی طرح ہٹادیا گیا۔


اس وقت پاکستان میں تحریکںلبیک پاکستان جو اسی پرانے علماء کے نقش قدم پر چل کر آگے آئی۔۔ امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ نے اس تحریک کو سنبھالا اور چند سالوں کے اندر اندر یہ تحریک نا صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی نیوز چینلز اور ملکوں کے اندر اسلامی جہاد اسلامی اقتدار کی حامی جماعت کے نام پر سامنے آئی۔ اور پھر آپ نے دیکھا اس کو بھی راستے سے ہٹانے کی سازشیں جاری ہیں۔ ایک حادثہ تو کردیا ہے کہ یہ تحریک بھی ایک دہشتگرد تحریک اور کالعدم ہے۔ لیکن اگلا پلان بھی ان کا یہی ہے کہ اس کو مزید پابند کیا جائے۔


ایسے حالات میں۔ موجودہ تمام مسائل کا حل کسی بھی (Short Term Solution) کے اندر ممکن نہیں، اس کے لئیے ہمیں کم وبیش 50سالہ پلاننگ کرکے یا اس سے بڑا کوئی (Long Term Solution) سوچنا پڑے گا، شارٹ ٹرم سے عارضی مسئلہ حل تو ہوجاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا۔ پھر سے وہ پیدا ہوجاتا ہے۔ مملکت خدادا پاکستان، اور عالم کے اندر اگر ہم احیائے اسلام کی کوشش کرنے کے لئیے مخلص ہیں تو اب ہمیں متفق ہو کر ایک منظم ایجنڈا اور منشور بنانا پڑے گا تب ہی جاکر کسی منزل مقصود تک پہنچنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ 


ہمیں اب کوئی ایسا لانگ ٹرم سولیوشن سوچنا ہوگا جس سے اسلام کا تشخص دوبارہ بحال ہو، اسلامی اقدار پھر سے ہماری زندگی میں آجائیں، مسلم امہ کی زبوں حالی کا تدارک کیا جاسکے۔ ورنہ 300سالوں سے ہم مختلف تحریکوں کو دیکھ چکے ہیں۔ جو سچے جزبے کے ساتھ خلوص نیت کے ساتھ نکلیں مختلف ممالک کے اندر لیکن ان کو کس طرح راستے سے ہٹادیا گیا۔ لہذا اب وقت ہے اتحاد کا، وقت ہے تعلیم کا، نوجوانوں کے اندر اسلام کی اصل روح دوبارہ پھونکنی ہوگی، ان کے جزبات کو برمحل اور بروقت استعمال کرنا ہوگا۔ ان کی ایسی تربیت کی جائے کہ کسی کی چالوں میں نا آسکیں، ورنہ ہم کبھی اپنا کھویا ہوا وہ ماضی واپس نہیں لا سکتے۔۔۔ اللہ پاک ہمارا حامی وناصر ہو۔

Comments

  1. MASHALLAH bht acha likha aony👍👍👍👍

    ReplyDelete
    Replies
    1. جزاک اللہ خیرا کثیرا شکریہ سلامت رہیں

      Delete
  2. بہت اعلی پر سوچ فکر مند تجزیہ ۔ بالکل ضرورت ہے ان لوگوں کی جوجوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی لے کر آئیں اور کام کریں صرف جوش کام نہیں آئے گا لانگ ٹرم پلان اور عدم استحکام کام آئے گی ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھنا ہو گا ۔اس تحریک کو دبانے کے لیے عالم کفر کا گٹھ جوڑ ہو چکا ہے تو عالم اسلام کو بھی اس پر سوچ بچار کر لینی چاہیے بہت خوب است لکھتے رہیں ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی جی بالکل ایسا ہی ہے۔ اب میں سوچنا پڑے گا اس طرف بھی ۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا شکریہ اپنی رائے دینے کے لئیے

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

توہین مذہب اور بلاد واقوام عالم" تحریر: قاضی سلمان فارسی

تحریک ‏ختم ‏نبوت ‏اور ‏نورانی ‏ڈاکٹرائن ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی

"روایت (علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل اور شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے تسامح اور خطاء)"تحقیق: قاضی سلمان فارسی