سید قطب ‏شہید ‏ایک ‏عہد ‏ساز ‏شخصیت

سید قطب شہید علیہ الرحمہ
ایک عہد ساز شخصیت

تحریر: قاضی سلمان فارسی

                  سید قطب شہید کا تعلق اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک خاندان سے ہے۔ جو مصر کے ضلع اسیوط نکے گاؤں موشا میں رہتے تھے۔ ان کے والد صاحب سید حاجی ابراہیم قطب متوسط زمیندار ہوتے تھے اور علاقے میں ایک معتبر شخصیت مانے جاتے۔ سیاسی سماجی 
سائل کے اندر ان سے ہمیشہ رائے طلب کی جاتی۔ اور ہفتے میں مجالس رکھتے جہاں لوگوں کو قرآن فہمی کا درس دیتے۔
آپ کی والدہ محترمہ سیدہ فاطمہ حسین اپنے پورے خاندان میں قرآن پاک سے محبت اور خدا سے تعلق کی بنا پر مشہور تھیں اور عالمہ و بزرگہ مانی جاتیں تھیں۔
ایسے گھرانے میں جہاں قرآن فہمی پر عروج تھا اس میں، 9اکتوبر 1906ء میں ایک نڈر بیٹے نے شرف تولد حاصل کیا۔ اور بچپن کی عمر میں ہی قرآن کو قرات سابعہ کے ساتھ حفظ کرلیا۔

آپ نے اپنے علاقے سے ہی دینی تعلیم شروع میں حاصل کی دارالعلوم تجہیزیہ سے۔ اس کے بعد آپ کے والدین حلوان چلے گئے اور وہاں آپ نے 1929ء میں میٹرک کی تعلیم مکمل کی۔ پھر آپ نے بقیہ تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی 1933ء تک۔ اور اس کے بعد وہیں آپ پروفیسر تعینات ہوگئے۔ 1933ء سے 1948ء تک آپ نے کافی علوم پر گرفت حاصل کی، مختلف نظریات کو پڑھا، اسلامی فکر پر۔ مغربی فکر پر۔ عبور حاصل کرلیا۔ لیکن اس بعد آپ مزید دنیا کو صحیح پیرائے میں پرکھنے کے لئیے امریکہ چلے گئے سرکاری وظیفے پر وہاں آپ نے دو یا ڈھائی سال قیام کیا تعلیم حاصل کی۔
آپ امریکہ میں ہی تھے کہ عالمی اسلامی رہنما اور تحریک اخوان المسلمین کے سربراہ امام حسن البناء کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا اور امریکہ کے اندر بطور جشن وہ دن منایا جارہا تھا۔ آپ کو بہت عجیب لگا۔ اور اس سے پھر آپ نے ایک جہادی سوچ لے کر مذہب کا پھر سے مطالعہ کرنا شروع کردیا۔

 اس کے بعد اپنے وطن واپس چلے گئے۔ واپس آنے کے بعد کافی دیگر ممالک کا بھی ایک مطالعاتی دوری کیا جن میں اٹلی، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ وغیرہ شامل ہیں۔ 1950ء میں آپ نے سرکاری بڑے عہدے کی نوکری کو ٹھوکر ماری اور تحریک اخوان المسلمین میں شمولیت کرلی۔اور ایک عہد کیا کہ میں اب اسی کے لئیے وقف ہوں۔اس دوران کافی کتابیں لکھیں انہوں نے سب سے پہلی کتاب 1949ء میں یا 1950ء لکھی جس کا نام تھا "العدل الاجتماعیہ فی الاسلام" تھا۔
سید قطب شہید کے تحریک میں آتے ہی جمال عبدالناصر اور اس کی حکومت نے ان کو وزارتیں دینے کا فیصلہ کرلیا اور ان کو پیشکش کی جا سے اخوان المسلمین کے کارنکان کے اندر ایک نئے روح پیدا ہوگئی کہ اب پھر ہماری تحریک ایک نئے سرے سے آئے گی سامنے کیونکہ امام حسن البناء کے وقت ان کو شہید کردیا گیا تحریک کے خلاف سازشوں کا دور تھا قیادت ختم کردی گئی۔۔ لیکن شاہ صاحب کے آتے ہی ایک نئی کرن محسوس ہوئی۔

سید قطب شہید نے بھی وہی ایجنڈا نظریہ اپنایا جو امام حسن البناء کا تھا۔

سید قطب شہید اسی طرح مضامین اور کتابیں لکھتے رہے۔ جس کے نتیجے میں جمال عبدالناصر نے تحریک کے خلاف پھر ایک آپریشن شروع کروایا۔ قیادت گرفتار ہوئی اور ان میں سید قطب شہید بھی شامل تھے۔ آپ کا جرم صرف اتنا تھا کہ آپ کے مقالات ومضامین سے نوجوان مشتعل جزبات کے حامل ہورہے تھے۔ ان کے اندر روح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک کرن روش ہو رہی تھی۔ انقلابی سوچ پروان چڑ رہی تھی۔ اسلامی روح بیدار ہورہی تھی جس کے اثرات معاشرے پر آنا شروع ہوچکے تھے ۔معاشرہ آہستہ آہستہ متاثر ہونے لگا تھا ان سے۔ اس جرم میں ان کو ببی گرفتار کیا گیا۔ گرفتار کرتے وقت ان کو شدید بخار تھا۔ اسی حالت میں ان کو ہتھکڑیاں لگادی گئی۔ اور پابند سلاسل کرکے جیل تک پیدل اسی بخار کی حالت میں لے جایا گیا۔ راستے میں جوتے نکال لئیے گئے بخار کی حالت اور شدت کرب کی وجہ سے آپ کی حالت تبدیل ہوکر بےہوشی میں بدل جاتی اور اسی حالت میں آپ بہت زور سے اللہ اکبر اللہ اکبر الحمدللّٰہ کے نعرے جاری ہوجاتے تھے۔ سی حالت میں ان کو فوجی جیل لایا گیا جس کے دروازے پہ پہنچتے ہی وہاں کے سپاہیوں نے گھیر لیا اور کم وبیش دو گھنٹے تک آپ کو زد کوب کرتے رہے باری باری۔ اس کے بعد کتے چھوٹے گئے جنہوں نے کاٹا اور گھسیٹا آپ کو جیل کے اندر جس سے فرش خون سے لت پت ہوگیا۔ اس کے بعد ان کو ایک کوٹھڑی میں لے جاکر اسی بیماری اور شدت کرب کی حالت میں زخمی حالت میں لگاتار بنا کچھ کھائے پئیے 7گھنٹےتک لگاتار تفتیش کی گئی۔ آپ کو جیل کے اندر طرح طرح کی مشقتیں دی گئیں۔ ذہنی اذیتوں سے دو چار کردیا گیا آپ کا جسم انتہائی کمزور ہوگیا۔ آنکھیں اندر دھنس چکیں تھیں جسمانی قوت جواب دے چکی تھی مگر روحانی ایمانی اور قلبی طور پر آپ زندہ تھے جس کی وجہ سے ان تمام صعوبتوں پر بھی آپ بےساختہ بےہوشی کی حالت میں الحمدللّٰہ اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے۔ آپ کو رات بھر ایک تنہائی والی کالی کوٹھڑی کے بند کمرے میں قید رکھا جاتا اور صبح کے وقت بلاناغہ فوجی پریڈ کروائی جاتی۔ ان مظالم کی وجہ سے آپ کی علالت شدت اختیار کر گئی تو آپ کو فوجی ہسپتال منتقل کردیا گیا وہاں پتہ چلا کہ آپ کے سینے کی ہڈیوں میں درسڑیں آ چکی ہیں۔ دل کے اندر بھی مرض ہے۔ ہڈیا کمزور پڑ چکی ہیں اسی طرح اور کافی چیزیں بتائیں گئیں۔ اس بےبنیاد قید کے بعد آپ کو عدالت منقتل کردیا گیا وہاں مقدمہ چلا اور آپ پر بغاوت اور تشدد کے الزام میں مزید پندرہ 15 برس کی قید کا فیصلہ جاری کردیا گیا۔

آپ نے جیل کے اندر خاموشی کا توڑ نکالا اور لکھنا شروع کردیا اور آپ نے قرآن پاک کی تفسیر جو مشہور زمانہ ہے ہر ہر لائبریری کی زینت ہے اس کے بغیر قرآن کی تفسیروں میں حسن سنگار نہیں آتا وہ تفسیر آپ نے ان صعوبتوں کے عالم میں لکھیپ۔ جیل کے اندر رہ کر دنیا کی یہ پہلی تفسیر تھی جس کو تحریکی تفسیر کا نام دیا گیا کئی جلدوں پر مشتمل ضخیم تفسیر ہے۔ جس کی شہرت شرق تا غرب پھیل گئی تھی۔ آپ کی قید کو 10سال گزرے تھے کہ اگست 1964میں۔ عراقی صدر عبدالسلام عارف کی ذاتی سفارش پر آپ کو رہا کردیا گیا۔اور عراقی حکومت نے آپ کو ایک وزارت دینے کی پیشکش کی لیکن آپ نے ٹھکرادی اور کہا موت بھی آئی تو وطن سے باہر جاؤں گا نا ہی اپنے موقف اور فکر سے پیچھے ہٹوں گا۔اس کے بعد آپ پر مزید گھیراؤں پھر سے تنگ ہوگیا۔ آپ مے مقالات اور مضامین لکھے جا سے پھر نوجوانان اور باقی عوام کے جذبات بلند ہونے لگے۔ اسلام کی آواز بلند ہونے لگی اس وقت آپ نے ایک مقالہ لکھا جس کے اندر سوشلزم (اشتراکیت) اور مارکسزم (کارل مارکس کی فکر) کا جنازہ پڑھا کر آپ مے ماتم کیا اور اسلامی نظام کو ان کے مقابل برتر اور قابل عمل ثابت کیا۔ لیکن پھر الزامات لگے اور کیس کئیے گئے مقدمات درج ہوئے جن میں دہشتگردی، بم سازی، سیاسی آمری شخصیات کے قتل کے منصوبے شامل تھے۔ روس اور امریکہ کے حکم پر آپ کو ایک سال ہی کے بعد پھر سے گرفتار کرلیا گیا۔ اور جیل کے اندر آپ نے ایک کتاب لکھی جو زندگی کی آخری کتاب تھی اور ایسا فکری ایٹم بم تھا جس نے جمال عبدالناصر کے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے۔ مقدمہ جب چلا تو وکلاء نہیں تھے لڑنے والے سارے ڈر گئے۔ سوڈانی وکلاء آئے تو ان کو ببی قاہرہ ائیرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا گیا۔ فرانس کے چند وکلاء نے درخواست دی مگر رد کردی گئی۔ کسی طرح مقدمہ آگے چلا آپ کو پہلے سے پتہ تھا فیصلہ میرے خلاف ہی آنا ہے۔ جب جج نے سزائے موت سنائی آپ مسکرا رہے تھے اور بےساختہ الحمدللّٰہ اور اللہ اکبر کے نعرے لگارہے تھے جس پر اس وقت کے جج نے کاغذ اٹھا کر جرنیلوں پر مارے اور کہا یہ لو تمہارا فیصلہ ہوگئے خوش اور باہر چلا گیا۔ دنیا کے مختلف کونوں سے جمال عبدالناصر کو اپیلیں کی گئیں رحم کی درخواستیں کی گئیں لیکن اس بدبخت آمر نے کسی کی ایک نہیں سنی۔ اور بالآخر 29 اگست 1966ء کو انہیں پھنسی دی گئی اور وہاں کے ریڈیو نے خبر کو اس طرح شائع کیا۔

"دوپہر کے وقت آج اخوان المسلمین کے تین قائدین کو فرعون مصر کے حکم سے پھانسی دے دی گئی ہے"_

سید قطب شہید کی فکر، نظریات اور خدمات  

 1__ آزادی رائے کی حمایت
چونکہ وہ وقت ظلم وجبر کا تھا آمریت کا دور تھا مصر کے اندر اس وقت لوگوں کو اپنی سوچ اور فکر کا استعمال کرکے رائے دینے سے منع کردیا گیا تو آپ نے آزادی رائے کے لئیے کوششیں کی۔ اور اپنے قلم اور زبان سے ہمیشہ اس پر لکھا۔ آپ ایک معاشرے کی ترقی کے لئیے انتخاب اور آزادی رائے کو لازمی سمجھتے تھے۔ اس کے بغیر معاشرہ جہالت کے اندر رہتا ہے جو کچھ نہ کرسکتا ہے نا آگے بڑھ سکتا ہے

2__ امام حسن البناء کی فکر کا اثر

سید قطب شہید عالم اسلام کی فکر میں رہتے تھے۔ ہمیشہ امریکہ کے اندر آپ نے جب امام احسن البناء کا سنا تھا تو آپ نے اس مرد قلندر کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا اور آپ پر کافی گہرے فکری اثرات مرتب ہوگئے جس کی وجہ سے آپ نے بعد میں اخوان المسلمین میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور آپ کو طرح طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔

3__ علمی خدمات
آپ نے اپنی فکری استعداد کو استعمال کیا ناصرف میدان عمل میں کارساز رہے بلکہ اپنے قلم سے علمی کام میں بھی پیش رہے۔ آپ نے مختلف علمی کتابیں لکھیں جن میں تفسیر "فی ظلال القرآن" بہت مشہور ہوئی- جو اپنی نوعیت کی ایک منفرد تفسیروں میں سے ایک ہے۔ اور سب بڑی بات ایک تحریکی تفسیر ہے جسے آپ نے جیل کے اندر لکھا تھا۔ اس کے علاؤہ قرآن مجید کے اسلوب بیان پر آپ نے عربی میں کتاب لکھی "التصویر الفنی فی القرآن"۔ اس کے علاؤہ "السلام العالمی والاسلام" ۔ "معرکۃ الاسلام والراسمالیہ" "مجتمع اسلامی"۔ ان سب کے علاؤہ آپ نے آخری کتاب "معالم فی الطریق" لکھی جیل کے اندر جس کی وجہ سے آپ پر سزائے موت کا مقدمہ مضبوط ہوگیا_

4__نظریات 

آپ بنیادی طور پر متشدد نہیں تھے۔ بلکہ احیائے اسلام کے لئیے آپے سر توڑ کوشش کی۔ لیکن اس دور میں آمریت چل رہی تھی دنیا پر اشتراکی فکر اور سرمایہ دارانہ سوچ حاوی تھی۔ اس میں آپ کی ذات پر اور تحریک پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے اور ان پر باقاعدہ دہشتگردی کا الزام لگا کر شہید کردیا گیا لاکھوں کارکنان کو قید و بند کردیا گیا۔ قیادت کے بڑے راہنماؤں کو شہید کردیا گیا۔ جب یہ ساری چیزیں آئیں تو اس کے نتیجے میں آپ نے ببی ہتھیار اٹھائے تھے اور جہادی فکر کو یکسر پھیلانا شروع کردیا۔ آج بھی جتنے جہادی نظریات رکھنے والے گروہ ہیں انہوں نے سید قطب شہید علیہ الرحمہ کو ہی اپنا پیشرو (آئیڈیل) بنایا ہوا ہے۔ چائے نائیجریا کی تنظیمیں ہوں، چائے وہ انڈونیشیا کی ہوں۔ ترکی کی ہوں یا پاکستان اور افغانستان کی ان سب نے آپ کو اپنا آئیڈیل بنایا اور ان ی فکر پر لوگوں کو چلایا۔ آپ کے متشدد اور مشتعل ہونے کے بعد آپ کو نقصان پہنچا اور تحریک اخوان المسلمین پر ببی پابندی لگادی گئی۔ اور بالآخر سید قطب شہید کو بھی کردیا گیا۔ آپ کی فکر کے اثرات آج تک موجود ہیں دنیا کے اوپر ۔ طالبان ہمیشہ ان کی ہی فکر سے متاثر ہوتے آئے ہیں آج بھی سید قطب شہید کو وہ اپنا ہیرو مانتے ہیں ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں عالم اسلام سید قطب شہید جیسے مرد قلندر کو کبھی نہیں بھول سکتی۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Comments

  1. Replies
    1. جزاک اللّٰہ خیرا کثیرا

      Delete
    2. Very informative and painful writing .. being read these lines my eyes were totally wet.😣😥

      Delete
    3. لکھتے وقت یہی کیفیت تھی میری بھی۔۔ ایسے لوگ نہیں آتے جلد۔ شکریہ کمنٹ کرنے کے لئیے

      Delete
  2. ہماری تاریخ اور ہمارے حکمرانوں کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے بہت اچھی کاوش ہے اللّٰہ پاک جزائے خیر عطا فرمائے آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. آمین ثم آمین یارب العالمین۔۔۔ وہ اقبال نے کہا تھا نا کہ اوج ثریا سے اٹھا کر ہمیں زمین پر دے مارا ہے ہمارے حکمرانوں نے۔۔۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا شکریہ

      Delete
  3. اللہ اکبر کبیرا۔ اتنی دردناک حیات تھی ان کی۔ کیسے کیسے ہمارے اکابرین گزرے ہیں اور آج ہم محکوم ومغلوب ہوئے ہیں۔ جزاک اللہ قاضی بھائی یہ
    تحریر لکھنے کے لئیے۔

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

توہین مذہب اور بلاد واقوام عالم" تحریر: قاضی سلمان فارسی

تحریک ‏ختم ‏نبوت ‏اور ‏نورانی ‏ڈاکٹرائن ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی

"روایت (علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل اور شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے تسامح اور خطاء)"تحقیق: قاضی سلمان فارسی