Posts

ڈاکٹر ‏اسرار ‏احمد ‏ایک ‏عہد ‏ساز ‏شخصہت

Image
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا  مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے  زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے                                     14 اپریل 2010ء ۔ یوم وصال پر ملال داعی قرآن، مدعی خلافت، محب پاکستان، عظیم مفکر، مدبر، انقلابی رہنما ڈاکٹر اسرار احمد صاحب۔  ڈاکٹر اسرار احمد صاحب شروع میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کی جماعت "جماعت اسلامی" سے وابستہ رہے مگر بعد میں اپنی تنظیم بنام "تنظیم اسلامی" کی بنیاد رکھی۔ اس کی ذیلی شاخیں اور  کئی شعبہ جات قائم کیے۔ مودودی صحاب کے بعد یہ پہلی شخصیت نظر آتی ہے جنہوں نے اس "انتخابی نظام" اور "جمہوریت" کی مخالفت کی۔ آپ نے "حقیقی تبدیلی" کا جو معیار دیا وہ "انتخابات" کی بنیاد پر نہیں، بلکہ آپ کی پوری فکر میں ہمیں "انقلاب، انقلاب، انقلاب، اور خلافت علی منہاج النبوہ" کا درس ملتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ہی سے متاثر شخصیت "ڈاکٹر طاھر القادری صاحب" ہیں۔ آپ نے اگرچہ "انقلاب" کی بات کی۔ مگر "خلافت" کی بات نہیں کی۔ بلکہ آپ نے "م

"میں کتا پاک رسول اللہ ﷺ دا ""بنتِ حسن رضویہ۔" ‏

Image
کتا پاک رسول اللہﷺ دا بھونکے شور مچاوے  ناموسِ رسالت ﷺ  گلشن وچ کوئی سور نا پھیرا پاوے!!  ہر دور میں اہل ایمان اور عاشقوں نے آپﷺ سے تعلق اور محبت کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔ تاریخ کے کسی موڑ پر کسی بدبخت نے جب بھی نازیبا حرکت  کرنے کی کوشش۔ کسی بدبخت نے آپﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے جیسی شرم ناک  جسارت کی؛ تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شتم رسولﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی مسلمانوں کو ایاز دینے کے لیے رسولﷺ کی شان مبارک میں نازیب کلمات کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ جہاں جب گستاخ نے گستاخی جیسا گھناونا جرم کیا۔ وہیں اللہ پاک نے رسولﷺ کے دیوانے پیدا کیے جو بنا کسی ڈر اور خوف کے دن رات اسی عزم میں رہتے کہ' کب گستاخ ہاتھ آئے اور وہ اس گند سے اٹھنے والی  ناپاک بُو کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفایا کر کے اس دنیا کو پاک کر دیں۔" جو گستاخ رسول ﷺ مسلمانوں کی تلواروں سے بچ نکلتے ہیں ۔اللہ پاک خود انھیں عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔  زمانے نے دیکھا ہے ' کوئی رسوائی کا شکار ہو کر مر جاتا ہے۔ کسی کو قبر قبول نہیں کرتی تو کسی کی موت دنیا کے لیے ایک معمہ بن ج

توہین مذہب اور بلاد واقوام عالم" تحریر: قاضی سلمان فارسی

Image
                            خالق کائنات اللہ رب العزت جل جلالہ عم نوالہ واتم برہانہ وعز اسمہ واعظم شانہ وجل مجدہ نے اس عظیم کائنات کو تخلیق کیا۔ اور اپنی افضل المخلوقات، اشرف المخلوقات (تخلیق) "انسان" کو اس کائنات میں اپنی بندگی اور اطاعت کے لیے مبعوث فرمایا۔ جب اپنی شان ربوبیت و الوہیت کے جلوے دکھانے چاہے تو مظاہر قدرت کو تخلیق کرکے انسان کو اس میں تدبر کرنے کی صلاحیت دی۔ اور اس کے اندر مادہ فطرت کو ودیعت کردیا تاکہ خدا شناسی اور معرفت تک رسائی میں اسے آسانی ہو۔ مگر پھر بھی انسان اگر ضلالتوں اور گمراہیوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں غرق جاتا تو مآل کار خدائے رحمان ورحیم اپنی مخلوق پر رحم وکرم کرتے ہوئے ان میں اپنے برگزیدہ پیغمبر کو مبعوث فرماتا تاکہ ان نافرمان بندوں کو دوبارہ راہ راست پر لانے کا فریضہ سر انجام دے جس سے خالق سے منقطع قلوب کا تعلق ایک بار پھر سے قائم ہوجائے۔ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار (124000) انبیائے کرام اسی فریضہء منصبی کو ادا کرنے کے لیے اس جہاں میں مبعوث ہوئے۔ جن میں سب سے آخر میں خاتم النبیین بن کر جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآل

حالاتِ حاضرہ جو ‏گزشتہ ‏سے ‏پیوست ‏ہیں۔ ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی

Image
‏اس وقت پاکستان کے اندر ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ حکومت اپنے اختیارات غریبوں پر تو استعمال کررہی ہے۔ مگر امیروں تک اس کا شکنجہ پہنچتے پہنچتے ٹوٹ جاتا کے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ سیاسی انتشار وخلفشار نے لوگوں کا جینا دوبر کردیا ہے۔ کچھ واقعات وحادثات بناکر۔ حکومت نے ان بےساکھیوں کے سہارے تین سال تو پورے کرلئیے ہیں۔ مگر اب آگے اشارہ مل چکا ہے کہ چھٹی کریں۔ حالات مکمل بےقابو ہورہے ہیں۔ جس کا اختتام پھر مارشل لاء ہی ہوتا ہے۔  صورتحال تین طبقات قابو کرتے ہیں: 1_عدلیہ 2_انتظامیہ 3_پارلیمان اس وقت یہ تینوں طبقات مکمل فیل ہوچکے ہیں۔ قرین قیاس ہے کہ جلد انتخابات کی کال دی جائے عبوری حکومت قائم کرکے۔ اگر ایسا بالفرض ہوتا ہے جو نظر آرہا ہے۔ تو اگلی حکومت کس کی ہوگی اس وقت یہ بہت اہم موضوع بن چکا ہے مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے ہاں۔ ہر آئے روز اسی پر بات ہورہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نیازی صاحب اپنی سیاسی دھک کھوچکے ہیں۔ اپنی غیر حاصل شدہ عارضی مقبولیت بھی ہار چکے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اندر بھی وزارتِ عظمیٰ پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا۔ ایک طرف بلاول الگ ہوکر حکومت ب

وطن ‏عزیز ‏تباہی ‏کے ‏درپے ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی

Image
مولائے کریم ملک پاکستان پر اپنا فضل نازل فرما۔ اس کو ان نادان ونااہل حکمرانوں کے رحم وکرم پر نا چھوڑ دے۔ یہ 70 سالوں سے اس مملکت خدادا مدینہ ثانی کو "خلافت" سے دور کرتے رہے۔ اسلامی نظام حکومت کا تو سایہ ہی دیکھنے نہیں دیا گیا اس وطن کو لیکن اب اس کی ساکھ سے بھی اسلام کے نظریات کو نکالا جارہا ہے۔ ریاستہائے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بناکر اس کے اندر حقوق انسان کی آڑ، آزادی نسواں کے بہانے اور آزادیِ اظہار کے نام پر اس کے رگ وپے کے اندر لبرل اور سیکولر خیالات کو مکمل پیوست کیا جارہا ہے۔ یہ وہ دور آچکا ہے۔ کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا" پوچھا گیا امانتوں کا ضائع ہونا اس سے کیا مراد ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: امانتیں ملکی امور ہیں اور ضائع ہونے کا مطلب نااہل لوگوں کو وہ امور دئیے جائیں گے" دوسری جگہ صاف الفاظ میں فرمایا: "آخری دور میں ہر معزز کو ذلیل سمجھا جائے گا، اور جو ذلیل ابن ذلیل ہوگا اس کو عزت دی جائے گی اور امور سلطنت انہی کو دئیے جائیں گے" ای

"روایت (علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل اور شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے تسامح اور خطاء)"تحقیق: قاضی سلمان فارسی

Image
حضور علیہ السلام کے اقوال، افعال، اور تقریرات کو حدیث کا نام دیا جاتا ہے جو دین کے اندر حجیت کا مقام رکھتی ہیں۔ اس لئیے صحابہ کرام علیہم الرضوان ان کے بعد تابعین، تبع تابعین، اتبع تبع تابعین اور آئمہ و محدثین کرام اس علم حدیث کو روایتا اور درایتا آگے منقتل کرتے رہے امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے۔ چونکہ حدیث کو مقام قبولیت وحجیجت حاصل تھا تو کچھ لوگوں (واضعین حدیث) نے اپنی طرف سے پھر موقع مناسبت سے مختلف روایات گھڑ کر ان کی خود ساختہ اسناد بنا کر امت کے اندر مشہور کردیں۔ اور وہ روایات آج تک ہمارے اندر موجود ہیں۔ مختلف ادوار میں اس پر کام ہوتا رہا اور ان روایات کو الگ کردیا گیا جس میں کبار محدثین میں سے امام ابن جوزی، ابن تیمیہ، امام ذہبی، امام سیقطی، امام ابن حجر عسقلانی، امام ابن حجر مکی امام کنعانی امام سمہودی، امام سخاوی، امام صنعانی، امام زرکشی وغیرہم کا نام سر فہرست ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان آئمہ ہی سے ایسی روایات منقول ہیں جو موضوع ہیں لیکن ان کی اپنی کتابوں میں موجود ہیں جیسے امام سیوطی نے ان احادیث کے خلاف کم وبیش 5-6کتابیں لکھیں۔ لیکن ان کی اپنی تفسیر "الدر المنثور" کو

تحریک ‏ختم ‏نبوت ‏اور ‏نورانی ‏ڈاکٹرائن ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی

                   اللہ رب العزت نے اپنی ربوبیت الوہیت اور وحدانیت کو ہمیشہ مخفی رکھا، اور جب اس کو ظاہر کرنا چاہا تو مکمل اور منظم تدبیر کے ساتھ اس عظیم کائنات کو شرف تخلیق بخشا، جہاں جنات اور انسان سب کو رہنے کا موقع عطاء فرمایا۔ اپنی ربوبیت براہ راست نہیں ظاہر کی کیونکہ دیدار الٰہی کے عتاب کی تاب لانا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اللہ پاک نے اپنی ربوبیت کو ظاہر کرنا چاہا تو اپنے مظہر کو اس دنیا کے اندر بھیجا انسانیت کے پردے میں۔چاور اس رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا شرف عظیمت بخشا کہ خود ہی "لو لاک کما خلقت الافلاک" فرماکر ثقلان وغلمات پر یہ آشکار کردیا کہ یہ اب کچھ جو تخلیق کیا گیا صرف اور صرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان دکھانے کے لئیے پیدا فرمایا۔ یہاں پر امام احمد رضا نے ترجمانی کی اور فرمایا: زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے چنین و چناں تمہارے لئے ، بنے دو جہاں تمہارے لیے اصالتِ کُل امامتِ کُل سیادتِ کُل امارتِ کُل حکومتِ کُل ولایتِ کُل خدا کے یہاں تمہارے لیے تمہاری چمک تمہاری دمک تمہاری جھلک تمہاری مہک زمین و فلک سماک و سمک میں سکہ نشا