حالاتِ حاضرہ جو ‏گزشتہ ‏سے ‏پیوست ‏ہیں۔ ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی

‏اس وقت پاکستان کے اندر ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ حکومت اپنے اختیارات غریبوں پر تو استعمال کررہی ہے۔ مگر امیروں تک اس کا شکنجہ پہنچتے پہنچتے ٹوٹ جاتا کے۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ سیاسی انتشار وخلفشار نے لوگوں کا جینا دوبر کردیا ہے۔ کچھ واقعات وحادثات بناکر۔ حکومت نے ان بےساکھیوں کے سہارے تین سال تو پورے کرلئیے ہیں۔ مگر اب آگے اشارہ مل چکا ہے کہ چھٹی کریں۔ حالات مکمل بےقابو ہورہے ہیں۔ جس کا اختتام پھر مارشل لاء ہی ہوتا ہے۔
 صورتحال تین طبقات قابو کرتے ہیں:

1_عدلیہ
2_انتظامیہ
3_پارلیمان

اس وقت یہ تینوں طبقات مکمل فیل ہوچکے ہیں۔ قرین قیاس ہے کہ جلد انتخابات کی کال دی جائے عبوری حکومت قائم کرکے۔ اگر ایسا بالفرض ہوتا ہے جو نظر آرہا ہے۔ تو اگلی حکومت کس کی ہوگی اس وقت یہ بہت اہم موضوع بن چکا ہے مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے ہاں۔ ہر آئے روز اسی پر بات ہورہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نیازی صاحب اپنی سیاسی دھک کھوچکے ہیں۔ اپنی غیر حاصل شدہ عارضی مقبولیت بھی ہار چکے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اندر بھی وزارتِ عظمیٰ پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا۔ ایک طرف بلاول الگ ہوکر حکومت بنانے کا دعوے دار ہے تو دوسری طرف شہباز شریف صاحب بھی بہت سرگرم نظر آرہے ہیں۔ اور تو اور چچا کی بھتیجی نانی اماں محترمہ مریم نواز شریف بھی علم بغاوت بلند کرتی نظر آرہی ہیں۔

ان سب چیزوں میں ایک بات ثابت شدہ ہے کہ یہ چہرے بدلنے کی سیاست ہے۔ جمہوریت کا ایک ڈھونگ ہے جو حقیقتاً غیر جمہوری جمہوریت کا جعلی غلغلہ ہے۔
پاکستان کی 65٪ سول بیوروکریسی اس وقت ن لیگ کے ہاتھ میں ہے۔ جس کی وجہ سے عمران خان کچھ نہیں کرپا رہے۔ دوسری طرف مافیا بھی 50٪ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اپنی ہے۔ باقی پی ٹی آئی کا بھی اس میں حصہ ہے۔

ایسے حالات میں لوگوں کو اب یہ سمجھ جانا چاہیے کہ ہر آنے والا حاکم پچھلے کی شکایتیں کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ کہاں گئے عمران خان صاحب کے نعرے۔ وہ وعدے بلوں کو جلانے کے۔ وہ نوکریاں کہاں آڑ گئیں۔ صرف ایک جواب ہے۔ جی وہ پچھلی حکومت یعنی ن لیگ کا ملبہ ہے ہمارے اوپر۔ 

شکوۂ شب ظلمت سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
فقط باتیں اندھیروں کی محض قصے اجالوں کے
چراغِ آرزو لے کر نہ تم نکلے نہ ہم نکلے


تو میرے بھائی ن لیگ پر بھی پیپلز پارٹی کا ملبہ تھا نا؟؟؟ اس پیپلز پارٹی پر ن لیگ کا ملبہ۔ پھر ن لیگ پر مشرف کا ملبہ۔ چلے جائیں کہاں آپ کو بگاڑ نظر آئے وہاں سے اس کو اکھاڑ پھینکنے کا وقت آن پہنچا یے۔ اب اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا وقت آگیا ہے۔ عوام سے اس ریاست کا مطالبہ ہے کہ ان بدمعاش پاکھنڈی سیاہ ست دانوں کو اب اٹھا کر جیلوں میں بند کردیں۔ اور اس وہ عزیز میں نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا نفاذ کردیں اس کے بغیر تبدیلی کا نعرہ ایک ڈھونگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اس حکومت نے بہتری کیوں نہیں لائی۔ صفائی کیوں نہیں کی۔ مہنگائی کم کیوں نہیں کی یہ ہمارا سوال ہے ہی نہیں۔ ہم کہتے ہیں بہتری کا آغاز کیوں نہیں ہوا؟؟ آخر صفائی کا آغاز کیوں نہیں ہوا؟؟ مہنگائی کنٹرول کرنے کی شروعات کیوں نہیں کی گئی؟؟ صرف سودی قرضے دے رہے ہیں۔ اور ٹیکسز بڑھا کر عوام کو لوٹا جارہا ہے۔ آخر یہ سارا پیسہ کہاں گیا۔ قوم پوچھتی ہے کہاں گیا۔ ن لیگ نے بڑے بڑے منصوبے بناکر اربوں کی کرپشن کی۔ لیکن موجودہ حکومت نے تو دکھانے کے لیے کوئی منصوبہ ظاہر تک نہیں کیا۔ چلو کوئی ایک اینٹ رکھ دیتے ڈیم کی جن کا اربوں چندہ لیا۔ اب بھی ریلوے ٹیکس کاٹتی ہے اس کا۔ کوئی نیا منصوبہ شروع کرکے کرپشن کرلیتے۔ مگر نکیں۔ مکمل پیسہ غائب کردیا گیا ہے۔ گیا کہاں واللہ اعلم باالصواب۔ آخر یہ سارا پیسہ کہاں گیا۔ کرپشن روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟

صرف ایک جواب ہے عمران خان صاحب کو چاہیے چیئرمین پی سی بی بن کر بیٹھ جائیں۔ کرکٹ پر توجہ دیں شاید اس کو ٹھیک کردیں۔ باقی سیاست اور حکومت عمران خان صاحب کو سرے سے آتی ہی نہیں ہیں۔ ان کے دور حکومت کے اندر کبھی کبھی کبھی ترقی نہیں ہوسکتی۔ غربت ختم نہیں ہوسکتی چائے 20سال حکومت کرلیں۔ ان کی پالیسی ہی فیل ہوچکی ہے۔ صرف آپ کا ایجنڈا اچھا ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کارل مارکس کا نظام برا نہیں تھا۔ اشتراکیت بہت اچھا نظام تھا مگر فیک ہوگیا کیوں؟؟ کیونکہ ان کو سیاست کرنا آتی ہی نہیں تھی کارل مارکس ایک فلاسفر تھا مفکر تھا۔ عمران خان صاحب بھی ایک کرکٹر ہیں وہی کام کریں۔ ورنہ اس ملک کا اللہ حافظ ہوجایے گا۔

اللہ پاک ہمارے وطن عزیز کا حامی وناصر ہو۔

جیوے جیوے جیوے پاکستان
جئیے جئیے جئیے بلوچستان

Comments

  1. پچھلے کم و بیش چہتر سال سے کوئی ایک قائد کوئی ایک لیڈر ایسا نہیں ملا جو اس ملک کی قیادت کو سنبھال سکے اسے اپنا گھر بنا سکے سب نے لوٹ مار کر کے اس سے باہر جا کر بسیرا کیا ۔ ایک گیا دوسرا آیا پھر پہلا آیا پھر بھولی وبھالی عوام نے تیسرا آزمایا۔ وہ سب سے الٹ نکلا اسنے بیساکھیاں ہی چھین لیں اسنے نظریہ ہی دفن کر دیا اسکے وزراء نے لال ٹیکے لگا کرمندروں کی اوپنگ شروع کر دی یعنی ایمان کا خاتمہ مسلم کی روح نکالی جانے لگی ۔عالمی منڈی میں منہگائی ہوئی لیکن وہاں قوتِ خرید بھی بڑھائی ہماری قوتِ خرید وہی رہی اور بمب پر بمب ہم پر نصب ہوتا رہا ۔ حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے یا تو قوم اسرائیل کو مان لے یا پھر بھوک سے مر جائے نیو کیلیر پروگرام سے دستبردار ہو جاو یا ایمان بیچ دو ۔اس کو اسی مقاصد کے تحت ہم پر برجمان کیا گیا تھا لیکن اسے یہاں بھیجنےوالے اس ملک کے رازوں سے ناواقف ہیں قربانیاں تو دینی پڑیں گی ہمیں ۔اس تنگ پہیہے سے نکلنے کے لیے تگ و دو کرنی پڑے گی ان سب کے اعزام ایک سے ہیں ان میں سے ایک بھی اس ملک سے وفادار نہیں ہے ۔ان سب نے اپنی تجوریاں بھری ہیں ۔اور رہی سہی کسر جب اقتدار میں آتے ہیں تو ہر ادارے کو اپنے باپ کا مال سمجھ لیتے ہیں جیسے عدالیہ کہنے کو آزاد ہے لیکن وہ ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے جس ریاست میں انصاف ناپیدا ہو جائے وہاں انسان جانوروں کی طرح ہو جاتے ہیں جیسے حالیہ میں کچھ سندھ کے واقعات ۔ لوگوں کو مارا جا رہا ہے سندھ حکومت خدا بن بیٹھی ہے ان کا بھٹو مر ہی نہیں رہا ۔ مختصراٙٙ ہر صوبہ کو کسی نا کس نے یرغمال بنا رکھا ہے ۔جب تک ذاتی خواہشات و آسائش مقدم رہیں گی ملک کے حالات نہیں بدل سکتے ۔جو چیز جس نام پر جس نظریہ پر کھڑی ہو اگر وہ ختم ہو جائے تو یہی حال ہوتا ہے جو آج ہمارابنا دیا گیا ہے ہمارے ذہنوں کو اصل سے دور کر دیا گیا ہے ہمیں سونے کے انڈے دینے والی مرغی دکھا کر لالی پاپ دیا جاتا ہے جب تک ریاعا خود تبدیلی نہیں چاہے گی تب تک ایسے ہی روندھی جاتی رہے گی ۔۔۔افراد کے ہاتھ میں اقوام کی تقدیر
    ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔

    ReplyDelete
  2. اپوزیشن سب کو لگ رہاہے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے نہیں ہر گز نہیں نواز خاندان کبھی خاموش نہیں رہ سکتا وہ اپنا کھیل کھیل رہے ہیں انہوں نے اس حکومت کو چلنے ہی نہیں دیا اسے کوشش کرنی چاہیے تھی لیکن یہ ڈنگر فیصلے کرنے کی قوت نہیں رکھتا اس کے وزراء لیگ کے ہیں یہ کیسے حکومت کر سکتا ہے یہ سارے ایک ہی تالی کے چٹے بٹے ہیں ۔ اسے چاہیے تھا عوام کا ساتھ دیتا عوام کو ساتھ ملا لیتا لیکن افسوس اس نے چند ایسے کیے جس سے اسلامی طبقہ تو بالکل ہی اس سے نالاں ہو گیا پھر نچلا طبقہ ۔ ۔ نچلے طبقے کو بس دو وقت کی روٹی کس بھی طرح کما کر کھانی ہے اسے روٹی سے فرصت ملے تو وہ ان سب کے بارے میں سوچے جب جب الیکشن کا وقت قریب آتا ہے پھر انھیں چھوٹا طبقہ دکھائی دیتا ہے لیکن افسوس جب تک ہم ان کے کھوکھلےنعروں سے اسیر ہوتے رہیں گے تباہی مقدر رہے گی ہر فرد کو سوچنا ہو گا ہر فرد کو ایمان نہیں۔بیچنا ہو گا ۔
    دوسری بات جتنی مراعات جتنی آسائشیں بلکہ عیاشیاں اوپری طبقے کو دی جاتی ہیں وہ ختم ہونی چاہیے ۔ اعتدال نہیں ہے یکسویکسوئی نہیں ہے امیر امیر تر غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے وجہ ہر بندے نے ایمان بیچ چھوڑا ہے لوگوں کے دلوں سے ڈر خوف نکل گیا ہے وجہ حاکم کے پاس پوچھ گچھ کا وقت نہیں ہے حاکم کی ناک کے نیچے سب ہو رہا ہے اور وقت کا ولی بے خبر سو رہا ہے ۔ اصول وضبواط صفر ہو چکے ہیں ذات مقدم ہو چکی ہے ۔ ریاست کے لیے انا نہیں ہونی چاہیے ریاست کا حاکم باپ جیسا ہوتا ہے اور ریاست کےلوگ بچے جیسے لیکن یہاں جو حاکم بنتا ہے وہ دجال کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ماضی میں بھی یہی کچھ ہوا ان کا طریقہ مختلف تھا کھلاو اور کھاو ۔۔ عوام تب بھی چکی پیستی تھی اب بھی پیس رہی ہے فرق کچھ زیادہ نہیں ۔فرق وہی کہ جو حال بیت المقدس،کشمیر برما افغانستان کا امریکہ کروا رہا ہے وہی یہاں کا کرنا چاہتے ہیں سب کو علم یہ ہے . .۔۔۔

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

توہین مذہب اور بلاد واقوام عالم" تحریر: قاضی سلمان فارسی

تحریک ‏ختم ‏نبوت ‏اور ‏نورانی ‏ڈاکٹرائن ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏تحریر: ‏قاضی ‏سلمان ‏فارسی

"روایت (علماء امتي كأنبياء بني اسرائيل اور شارح بخاری علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے تسامح اور خطاء)"تحقیق: قاضی سلمان فارسی